ابن کنول: ادبی خدمات
ابن کنول: ادبی خدمات
ڈاکٹر عبدالرّحمٰن، ریختہ فاؤنڈیشن، نوئیڈا، اترپردیش
Ibn-e-Kanwal: Adbi Khidmaat by Dr. Abdur Rahman
گذشتہ پانچ دہائیوں میں اردو ادب کی گراں قدر خدمات انجام دینے میں جن ادیبوں اور قلم کاروں نے اپنی شناخت قائم کی ہے، ان میں ابن کنول کا نام محتاج تعارف نہیں۔ ابن کنول نے اپنے ادبی سفر کا آغاز آٹھویں دہائی میں اردو میں مختصر افسانہ نگاری سے کیا، لیکن افسانہ نگاری ہی ان کی توجہ کا مرکز نہیں رہی بلکہ تحقیق، تنقیدی، ڈرامہ نگار ی کے ساتھ ساتھ دیگر ادبی خدمات انجام دے کر اردو ادب میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ابن کنول کا اصل میدان افسانہ نگاری ہی رہا ہے۔
ابن کنول کا تعلق صوبہ اترپردیش کے ضلع بلند شہر کے ایک قدیم قصبہ ڈبائی سے ہے۔ ان کے والد کا نام شمش الحسن کنولؔ ڈبائیوی تھا جن کواردو ادب سے اس قدر دلچسپی تھی کہ بچپن ہی میں اردو کی بیشتر داستانیں پڑھ ڈالی تھیں۔ شمس الحسن کنول ایک وطن پرست شاعر تھے اور کنول ؔتخلص اختیار کرتے تھے۔ ان کے دو شعری مجموعے ”بساط زیست“ اور ”سوز وطن“ کے عنوان سے شائع ہوچکے ہیں اور ”مضراب“ کے نام سے ان کا کلیات بھی شائع ہوچکا ہے۔
ابن کنول کی پیدائش 5؍اکتوبر 1957ء بہجوئی ضلع مرادآباد میں ہوئی۔ گھر والوں نے ان کا نام ناصر محمود کمال رکھا۔ انھوں نے جب ادبی دنیا میں قدم رکھا تو ابنِ کنول کے نام سے اپنی شناخت قائم کی۔ ابن کنول نے افسانہ نگاری کے ساتھ تحقیق و تنقید اور ڈرامہ نگاری میں بھی نمایاں خدمات انجام دیا ہے۔
ابن کنول نے ابتدائی تعلیم گنور میں حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ کا رخ کیا جہاں انھوں نے ہائی اسکول، انٹرمیڈیٹ، بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے۔ ابن کنول نے اعلیٰ تعلیم دہلی یونیورسٹی سے حاصل کی جہاں انھوں نے ایم فل اور بوستان خیال کے تہذیبی اور لسانی مطالعہ کے موضوع پر ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ابن کنول دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے منسلک ہوگئے اور اسی شعبہ کے ذریعہ انھوں نے اپنی تمام زندگی اردو ادب کی خدمت میں گزار دی۔ تحریری خدمات کے علاوہ تعلیم و تعلم اور تدریس کے میدان میں بھی ان کی خدمات لائق تحسین اور قابل صدر افتخار ہے۔
ابن کنول کی ادبی زندگی کا آغاز طالب علمی کے زمانے سے شروع ہو گیا تھا۔اسکول کی تعلیم کے دوران ہی انھوں نے چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنی شروع کردی تھی۔ان کے ایک ساتھی اسلم حنیف شاعری کرتے تھے اور یہ افسانے لکھتے تھے۔دونوں ایک دوسرے کو سنا کر خوش ہوتے تھے۔ابنِ کنول کو شاعرانہ مزاج ورثہ میں ملا تھا۔جس کی بنا پر کبھی کبھی شعر بھی کہہ لیتے تھے۔انھوں انسان کے چاند پر اترنے پرپہلی نظم کہی جو رسالہ”نور“ رام پور میں شائع ہوئی۔ ابن کنول نے 1972ء سے باقاعدہ افسانہ لکھنا شروع کیا جو ناصر کمال کے نام سے شائع ہوتا رہا، لیکن 1975ء سے انھوں نے ابنِ کنول کے نام سے لکھنا شروع کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد کنولؔ تخلص اختیار کیا کرتے تھے جس کی نسبت سے انھوں نے بھی اپنا قلمی نام ابنِ کنول ہی رکھ لیا۔
ابن کنول نے جب بی۔اے میں داخلہ لیا توان کی ملاقات قاضی عبدالستار سے ہوئی۔اسی زمانے میں علی گڑھ میں نوجوان افسانہ نگاروں کی ایک جماعت ابھر کر سامنے آئی جس کی رہنمائی برصغیر کے معروف افسانہ نگارقاضی عبدالستار کر رہے تھے۔ اس جماعت میں شارق ادیب،سید محمد اشرف،غضنفر،پیغام آفاقی،طارق چھتاری،غیاث الرّحمن وغیرہ بھی شامل تھے۔اس کے علاوہ نوجوان شعرا کی بھی ایک جماعت تھی۔جس میں صلاح الدین پرویز،آشفتہ چنگیزی،فرحت احساس،اسد بدایونی،مہتاب حیدرنقوی وغیرہ شامل تھے۔دونوں جماعت کی ماہ نامہ نششت قاضی عبد الستار کے مکان پر ہوتی تھی۔ افسانے، شاعری سنائی جاتی تھی اور اس پر تبصرہ بھی ہوتا تھا۔ ابن کنول بھی اس جماعت کا حصہ بن گئے اور افسانے لکھنے کےکا آغاز کیا۔ صرف افسانوں تک ہی ان کی توجہ مرکوز نہ رہی بلکہ اردو ادب کے مختلف گوشوں کو اپنی مرکز توجہ بنایا جن کا ذکرذیل میں تفصیل کے ساتھ ہے۔
افسانہ نگاری:
اردو افسانے کی تاریخ میں بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی ایک منزل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں سے اردو افسانہ ایک نئی شاہراہ پر نئے قافلے کے ساتھ اس صنف کی تاریخی ارتقا میں کچھ نئے اضافوں کے ساتھ ایک داستان رقم کرنے کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ یہی وہ نشان منزل ہے جہاں سے اس دور کے لکھنے والوں نے اصول ونظریات کی بے جا پابندیوں کو پس پشت ڈال کر مکمل آزادی کی فضا میں سانس لینے اور انسانی زندگی کے متنوع مسائل کو تخلیقی آزادی کے ساتھ رقم کرنے کا مصمم ارادہ کیا۔ اس دور کے افسانہ نگاروں میں سے ایک نام ابن کنول کا بھی ہے،جنہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعہ انسانی زندگی کی گوناگوں پہلوؤں کی عکاسی کی ہے اور اپنے فن کارانہ ہنر مندی و فکری رسائی کے ذریعہ عہد جدید کے افسانہ نگاروں میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ابن کنول نے نہ صرف ایک نئی راہ اختیارکی بلکہ متنوع اسالیب بیان و طرز اظہار کے ذریعہ اردو افسانہ کے فن کو نئی دشا بھی دی۔ ابن کنول نے پچاس سے زائد کہانیاں تخلیق کی ہیں جو متعدد رسائل وجرائد میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں۔ان کی افسانہ نگاری کے تعلق سے پروفیسر قمررئیس لکھتے ہیں:
’’آٹھویں دہائی نے اردوکواس کی محبوب متاع گمشدہ،افسانہ واپس کردیا۔ نام نہادجدیدیت نے افسانہ کوچیستاں بناکران ہزاروں قارئین سے چھین لیاتھا، جوافسانے میں انسانی مسائل کے تخلیقی افسانوی اظہارسے مانوس تھے اوراسی کوافسانہ کاافسوں جانتے تھے۔ اردومیں افسانہ کی اس بحالی میں بعض ممتازادیبوں کے علاوہ آٹھویں دہائی کے جن نوعمراورنوجوان ادیبوں کا حصہ رہاہے۔ ان میں ڈاکٹرابن کنول کانام اہمیت رکھتاہے۔‘‘
(ڈاکٹر ابن کنول، تیسری دنیا کے لوگ،جمال پرنٹنگ پریس دہلی،1984ء، فلیپ)
ابن کنول کے اب تک تین افسانوی مجموعے ”تیسری دنیاکے لوگ“، ”بندراستے“ اور ”خانہ بدوش“ منظر عام پرآچکے ہیں۔ان مجموعوں میں شامل تمام افسانوں کو یکجا کر کے2014ء پچاس افسانے کے نام سے خود شائع کیا۔افسانوں کے علاوہ اردوادب کے مختلف گوشوں پرکئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ پہلا افسانوی مجموعہ ”تیسری دنیاکے لوگ“ جون 1984ء میں منظرعام پر آیا۔
اس مجموعے کے بیشتر افسانوں میں انھوں نے داستانوی طرز اسلوب کو اختیار کیا ہے اور بڑی خوش اسلوبی اور کمال فنکاری سے اس اسلوب میں اپنی کہانیوں کو برت کر صنف افسانہ کو نئے معنی سے سرفراز کیا ہے۔ اس مجموعہ کے افسانوں میں بیسویں صدی کے کوائف کا ذکراس انداز سے ملتاہے۔ جیسے قاری اسی عہد میں موجود ہو اوربعینہ اس کامشاہدہ بھی کررہاہو۔ ان کے افسانوں میں سیاسی، سماجی اورتہذیبی زندگی کے عناصر کارفرمائیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اس مجموعہ کے بعض افسانے انسان کی داخلی زندگی اور نفسیاتی گتھیوں کا تجزیہ پیش کرتے ہیں، نیز اس کے علاوہ ابن کنول کے افسانوں میں عہد حاضر کے پیچیدہ اورگنجلک مسائل کی عکاسی بھی بخوبی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسی لیے ان کے بیشتر افسانے انسانی زندگی کی جیتی جاگتی تصویرہیں۔ کمال امتیازیہ ہے کہ ان کے افسانے قصہ گوئی اورداستانوی اسلوب سے مزین ہوتے ہوئے بھی موجودہ عہداوران کے مسائل سے پوری طرح ہم آہنگ نظرآتے ہیں۔
دوسراافسانوی مجموعہ ”بندراستے“ 2000ء میں منظرعام پرآیا۔ ابن کنول نے اس مجموعے کے زیادہ تر افسانوں میں ہندوستانی پس منظر میں عوام کے ہنگامی مسائل خصوصاً عصر حاضر میں ہندوستانی مسلمانوں کے حالت زار کی عکاسی ہے۔ اس مجموعہ کے افسانے زیادہ ترملک کے سیاسی منظرنامہ پر تبصرہ کرتے ہیں۔ مثلاً: سانحہ بابری مسجد، گجرات کی قتل وغارت گری کا حادثہ، دور حاضر میں دہشت گردانہ کاروئیاں وغیرہ ہیں۔ نیز اسی کے ساتھ اس مجموعے کے بعض افسانے بدعنوانی، مہنگائی، عصمت دری جیسے سماجی مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ افسانے موضوعاتی سطح پر اپنے دور کے حالات، مسلمانوں کی بے بسی اور ہندوستانی معاشرہ میں در آئی خرابیوں کا مرثیہ بیان کرتے ہیں۔
ابن کنول افسانہ نگاری کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جسے مابعد جدیدیت کہا جاتا ہے۔ مابعد جدیدیت سے قبل جدیدیت کا رجحان زوروں پر تھا جس میں علامت، استعارہ اور تمثیلی انداز بیان ناگزیر تصور کی جاتی تھی۔ اس مجموعے کے بیشتر افسانوں میں سیاسی اور سماجی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ابن کنول کے بعض افسانے بھی علامت واستعارے کی اچھی مثالیں ہیں، چونکہ ان کا تعلق داستانوں سے بھی رہا ہے لہٰذا انھوں نے داستانوی رنگ وآہنگ سے بھی خوب خوب فائدہ اٹھایا ہے اور اپنے افسانوں میں ندرت پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس مجموعے میں شامل بعض افسانوں کا اسلوب مذکورہ بالا اسالیب میں لکھے گئے ہیں جبکہ بعض افسانے مختلف ہیں۔ ان افسانوں میں علامت کا استعمال تو ملتا ہے لیکن ابہام نہیں ہے۔ اسی طرح داستانوی طرز کا احساس تو ہوتا ہے مگر اس رنگ کا غلبہ نظر نہیں آتا۔ یہ افسانے نہایت ہی خوبصورت اورصاف ستھرے انداز میں لکھے گئے ہیں۔
تیسرا افسانوی مجموعہ”خانہ بدوش“ 2014ء میں منظر عام پر آیا۔ جس میں 23 افسانے شامل ہیں۔ ابن کنول نے اس مجموعہ کے زیادہ تر افسانوں میں فرقہ وارانہ فساد، انسانی درندگی، دہشت گردی اور سماجی مسائل جیسے موضوعات کوبڑے ہی فن کارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔فنی لوازم سے پُران افسانوں میں بہت ہی سادہ اور عام فہم زبان میں تخلیق کار نے اپنا پیغام قاری تک پہنچایا ہے۔
تحقیق نگاری:
ابن کنول نے تحقیق کے میدان میں بھی اپنے قلم کا جوہر دکھایا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کی دو ایسی کتابیں ہیں جو خالص تحقیقی کام پر مشتمل ہیں ۔ ان میں ایک کتاب ان کے پی ایچ ۔ ڈی ۔ کا تحقیقی موضوع تھا ۔ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ سندی تحقیق غیر معیاری زیادہ ہوتی ہے لیکن ابن کنول کی یہ تحقیق اس معنوں میں اہم ہے جس کو دیکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ انھوں بڑی محنت و مشقت اور لگن کے ساتھ کام کیا ہے ۔ دوسرا تحقیقی کارنامہ ابن کنول نے اپنے شوق اور جذبہ کے ساتھ کیا ہے جو اردو ادب میں ایک نیا اضافہ کرتا ہے ۔ اس تحقیق میں ابن کنول نے اردو ناول کا نقش اوّل دریافت کیا ہے ۔
’’ریاض دلربا‘‘پرو فیسر ابن کنول کی ایک مرتب کردہ کتاب ہی نہیں بلکہ ان کی بہت اہم تحقیق بھی ہے ۔ کتاب پرابن کنول نے وقیع مقدمہ لکھا ہے اور اس مقدمے میں اپنی کی گئی تحقیق کے ذریعہ یہ ثابت بھی کیا ہے کہ’’ ریاض دلربا‘‘ اردو کا پہلا ناول ہے ۔ جس میں انھوں نے اس کتاب کے متعلق اہم جواز پیش کیا ہے ۔ ’’ریاض دلربا‘‘ کا سنہ تصنیف 1832ء ہے ۔ اس میں ہندوستانی عوام کی معاشی بدحالی کی طرف توجہ مبزول کرایا گیا ہے ۔ ابن کنول کے ہاتھ جو نسخہ لگا وہ مطبوعہ تھا ۔ اس کی طباعت 1863ء میں جیل پریس رہتک (ہریانہ) سے ہوئی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ اردو دنیا نے اسے اردو ناول کا نقش اول نہیں قبول کیا۔
تنقید نگاری:
ابن کنول کے تنقیدی نظریات و عملی تجزئیے ان کے متعدد تنقیدی مجموعوں پر مشتمل ہیں۔ ابن کنول نے تنقید نگاری کے تعلق سے کئی کتابیں لکھی ہیں جو ادب و فن کے مسائل پر بڑی گہرائی کے ساتھ ان کے نظریات کو پیش کرتی ہیں، نیز سمجھنے اور سمجھانے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔ یہ کتابیں اردو ادب کے متعدد گوشوں پر ان کی گہری نگاہ کو بھی ثابت کرتی ہیں۔ ابن کنول کی تنقیدی تحریروں میں ان کی کتاب ’’تنقید تحسین‘‘ ایک اہم کتاب ہے۔ اس کتاب میں اردو کے مختلف گوشوں پر مضامین شامل ہیں۔،جوعلیحدہ علیحدہ گوشوں پراپنی تنقیدی نوعیت پیش کرتی ہیں۔ ابن کنول کی تنقیدی تحریروں میں دوسری اہم اور مشہور کتاب ’’داستان سے ناول تک‘‘ ہے اس میں داستان کے فن کے علاوہ اردو کے داستانوں مثلاً سب رس، قصہ مہر افروز دلبر، نوطرز مرصع، عجائب القصص، باغ و بہار، مذہب عشق، فسانۂ عجائب اور بوستان خیال وغیرہ پر تفصیلی مضامین شامل ہیں۔ اس کتاب پر پروفیسر عبدالحق کا یہ اعتراف بجا ہے۔ ’’تقریباً سبھی اہم داستانوں کی تفہیم و تجزیے اور ن کے اساسی اسالیب کی دروں بینی نے اس کتاب کو اساتذہ و طلبا کے لیے ناگزیر بنا دیا ہے۔‘‘ پروفیسر ابن کنول کی یہ کتاب واقعی اساتذہ اور طلبا کے لیے کار آمد اور مفید ہے۔
پروفیسر ابن کنول کی کتاب ’’اردو افسانہ‘‘ افسانوی تنقید پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں ابن کنول نے اردو ادب کے صف اول کے افسانہ نگاروں پر تنقیدی مضامین اور ان کے ایک شاہکار افسانے کا انتخاب بھی کیا ہے۔ ابن کنول کی تنقیدی کتابوں میں ایک کتاب ’’تنقیدی اظہار‘‘ کے عنوان سے بھی ہے۔ جس میں اردو ادب کے مختلف گوشوں مثلاً داستانوں، غیر افسانوی نثر، مرثیہ نگاری، تنقید نگاری اور افسانوں وغیرہ کے متعلق تنقیدی مضامین شامل ہیں۔
ڈرامہ نگاری:
ابن کنول نے تخلیقی ادب میں افسانے کے علاوہ ڈراموں کی طرف بھی توجہ مبذول کی ہے۔ ’بزم داغ‘ ابن کنول کے ڈراموں کا واحد مجموعہ ہے جو 2020ء میں منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے میں کل چار ڈرامے ہیں۔ پہلا ڈرامہ ’بزم داغ‘ ایک شخصی ڈرامہ ہے جو اردو ادب کے مشہور شاعر ’داغ‘ دہلوی پر مشتمل ہے۔ دوسرا ڈرامہ ’ایک بادشاہ کی کہانی‘ ہے۔ تیسرا ڈرامہ ’خواب‘ کے عنوان سے ہے جو موجودہ دور کے مسائل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مجموعہ کا چوتھا ڈرامہ ’پہلے آپ‘ کے عنوان سے ہے۔ جس میں انسانی ہوس اور خود غرضی کی ومدنظر رکھ کر اس کی طرف توجہ مذول کرائی گئی ہے۔ یہ کشمکش اور تذبذب سے بھرپور دلچسپ ڈرامہ ہے۔ ان تمام ڈراموں کے متعلق ڈاکٹر محمد کاظم لکھتے ہیں:
’’ان چاروں ڈراموں میں چار مختلف پلاٹ کے زمانے کی ناہمواریوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ان ڈراموں میں انیسویں، بیسویں اور اکیسویں صدی کی تہذیب و ثقافت، انسان کی فکر اور اس کے رویے، اخلاق واطوار کے گرتے معیار اور خود پرستی کے بڑھتے رجہان کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ ان ڈراموں میں فلیش بیک کی تکنیک دکھائی دیتی ہے تو پیش کش میں سادگی کا احساس ہوتا ہے۔‘‘
(تقریظ، مجموعہ ’بزم داغ‘ ص24، 25)
دیگر ادبی خدمات:
ابن کنول نے افسانہ نگاری اور تحقیق و تنقید نگاری کے علاوہ اردو ادب میں کئی طرح کی خدمات انجام دی ہیں، اس سلسلے میں ان کی کئی کتابیں مرتب کردہ اور اردو شاعری کے انتخاب وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ مثلاً ’’آؤ اردو سیکھیں‘‘ اردو زبان سیکھنے کے متعلق لکھی گئی ہے۔ ایک کتاب ’’سیرت مسیح‘‘ کے عنوان سےمرتب کی ہے یہ کتاب ’بیضون محمد بیضون‘ کی عربی زبان میں ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت پر مبنی ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ’طبیب سلیم‘ نے کیا تھا، جسے ابن کنول نے مرتب کے 1988ء میں خود شائع کیا۔ ’’نظیر اکبر آبادی (منتخب شاعری)‘‘ کے عنوان سے بھی ابن کنول کی ایک کتاب ہے۔ جس میں ابن کنول نے نؔظیر اکبرآبادی بہترین نظموں و غزلوں کا انتخاب کر کے ترتیب دی ہے۔ ’’انتخاب سخن (اردو شاعری کا نیا انتخاب)‘‘ اردو شاعری کے انتخاب پر مشتمل ہے۔ اس انتخاب میں ابن کنول نے کوشش کی ہے کہ اردو کی نمائندہ اصناف کے نمائندہ شعراء کے مخصوص کلام کی نمائندگی ہو سکے۔ گذشتہ تین چار صدیوں میں اردو کے اتنے قابل ذکر شاعر موجود ہیں کہ سب کے کلام کا انتخاب شامل کرنا ناممکن ہے۔ اس لیے کتاب کے مرتب نے کتاب میں نمائندہ شعراء کے غزلیات، قصائد، مثنویات، مراثی اور منظومات کو ہی شامل کیا ہے۔
’’باغ و بہار‘‘ ابن کنول نے ایک دقیق مقدمہ کےساتھ مرتب کیا ہے۔ جو 2008ء میں منظر عام پر آئی۔ اس میں میر امن دہلوی کی مختصر حالات زندگی اور ’’باغ و بہار‘‘ کی کہانی کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد باغ و بہار کی پوری کہانی ہے۔ آخر میں فرہنگ دیا گیا ہے جس میں مشکل الفاظ کے معانی کی وضاحت کی گئی ہے۔
’’مضراب‘‘ ابن کنول کے والد کنوؔل ڈبائیوی کی کلیات ہے جس کو ابن کنول نے مرتب کیا ہے۔ اس میں کنوؔل ڈبائیوی کے شعری مجموعے بالترتیب ’’سوز وطن‘‘، ’’بساط زیست‘‘، ’’سوز دروں (غزلیات)‘‘ اور ’’قطعات‘‘ شامل ہیں۔
ابن کنول نے کئی سفر اندرون ملک اور بیرون ممالک کا کیا۔ ان میں کچھ تعلیمی غرض کی نسبت سے اور کچھ ذاتی غرض سے بھی کیا ہے۔ جن کے نتیجے میں یہ سفر ناموں کا مجموعہ ’’چار کھونٹ (سفرنامے)‘‘ قلمبند کیا جو 2022ء میں منظر عام پرآیا۔ غیر ملکی اسفار میں سب سے پہلا سفر حج کے فرائض کے لیے مکہ سعودی عربیہ کا کیا۔ اس کے علاوہ امریکہ، موریشش، لندن، پاکستان، متحدہ عرب امارات، ماسکو اور ازبکستان کا بھی سفر کیا۔ غیر ملکی اسفار کے علاوہ اندرون ملک میں کئی شہروں کا سفر کیا جن کا ذکر’’ اختتامیہ (سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا) ‘‘کے عنوان سے اس سفرنامے کے مجموعے میں کیا ہے۔ یہ سفر نامے ان کی سفر کی شروعات سے لے کر واپسی تک ان تمام مراحل کی داستان بیان کرنے کے ساتھ ان ممالک اور جگہوں کی تہذیبی و ثقافتی داستان بھی پیش کرتے ہیں۔ بعض اسفار انھوں نے سیمینار وغیرہ میں شرکرت کی غرض سے کی جس میں سیمینار کی روداد کا مختصر طور پر ذکر ملتا ہے۔
ابن کنول کی ادبی خدمات کو دیکھتے ہوئے مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہم جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی تحریریں ہر دور میں طلبا، ریسرچ اسکالرز، محققین، نقادوں اور افسانے کی بنیاد تلاش کرنے والوں کے لیے روشنی فراہم کرتی رہیں گی۔ ان کی تحریریں ان کی شخصیت اور ذات کو کبھی فنا نہیں ہونے دیں گی۔ وہ ہر دور میں پڑھے اور سمجھے جائیں گے۔لیکن اس دار فانی میں فنا ہر ذات کی مقدر ہے۔11؍ فروری 2023ء کو اچانک ایک افسوس ناک خبر موصول ہوئی کہ اردو ادب کا یہ ستارہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ اچانک دل کا دورہ پڑنے سے ان کے انتقال کی خبر نے ہمارے دل پر گہرا ثر کیا چونکہ ابن کنول ادیب کے ساتھ ساتھ ہمارے بہت مشفق استاذ بھی تھے۔وہ جب بھی ملتے بہت خلوص اور خوش مزاجی کے ساتھ ہنستے ہوئے ملتے اور لکھنے پڑھنے کی تاکید کرتے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ رب العالمین استاد محترم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین!
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!