پروفیسرابن کنول:کچھ یادیں،کچھ باتیں

پروفیسرابن کنول:کچھ یادیں،کچھ باتیں

ڈاکٹرافضل مصباحی

اسسٹنٹ پروفیسروسیکشن انچارج آف اردو

ایم ایم وی، بنارس ہندویونیورسٹی، وارانسی، اترپردیش، بھارت

ای میل: afzalmisbahi@gmail.com

موبائل: 9810358883

                ’’ہاں بھئی! کیاحال ہے…؟بچے کیسے ہیں…؟نیاکیاکررہے ہیں…؟شعبے کے حالات کیسے ہیں…؟‘‘ انتہائی پیار، محبت اوراخلاص سے لبریز یہ اوراس طرح کے اوربھی بہت سے جملے سننے کوکان ترس گیا۔ اس لیے کہ یہ جملے ایک ایسے ہمدرد،مخلص،سرپرست اورخوشی وغم کے شریک استادمحترم کے ہیں؛جوبظاہراب اس دنیامیں نہیں ہیں،لیکن ان کی یادیںتروتازہ ہیںاور وہ تاحیات ایسی ہی رہیں گی۔ان کے مذکورہ جملوںکومحض جملے کہنابڑی نادانی ہوگی۔ یہ جملے اکسیرکاکام کرتے تھے اورتوانائی بخشتے تھے۔ تحریری سرگرمیوںمیں ذرہ برابربھی کوتاہیوں کاخدشہ ہوتے ہی فون کرکے دریافت کرتے کہ ’’ارے بھئی!ان دنوں کچھ لکھ پڑھ نہیں رہے ہیں!اس سے توبہترتھاکہ آپ روزنامہ ’انقلاب‘ میں تھے، جہاں ہرہفتے ایک کالم ’بولتی سطریں‘ کے نام سے نظرآجاتاتھا‘‘…اتناسننے کے بعدتن من لرزجاتااورفٹافٹ وہ تمام علمی وادبی سرگرمیاں شمارکرانے لگ جاتاکہ ’’پریم چندپرایک کتاب لکھ رہاہوں، امریکہ کاسفرنامہ لکھ رہاہوں، چندریسرچ پیپرزپرتحقیقی کام چل رہاہے، کلاسیزبھی ریگولرچل رہی ہیںاورسیکشن انچارج کافریضہ بھی انجام دے رہاہوں…‘‘ اتناسنتے ہی خوش ہوتے، دعائیں دیتے اورکامیابی کی نیک خواہشات کااظہارفرماتے۔ مجھے لگتاہے کہ میں ان کاکوئی اکلوتاشاگردنہیں ہوں؛جن کوآپ اس طرح کافون کرتے تھے، بلکہ ان تمام شاگردوں کے ساتھ آپ کاربط وضبط ایساہی تھاجن کاتعلق تعلیم وتعلم اورعلم وادب سے ہے۔ یہی سبب ہے کہ ابن کنول کے تمام شاگردیہی کہتے نظرآتے ہیںکہ ’’سرسب سے زیادہ ہمیںچاہتے تھے…‘‘

                استادگرامی پروفیسرابن کنول صاحب سے میرارشتہ دودہائی پرانا ہے۔ دہلی یونیورسٹی سے ایم۔اے۔(اردو) کے دوران(2002ء) آپ سے پہلی ملاقات ہوئی اوراستاداورشاگرد کارشتہ روزبروزمضبوط ترہوتاچلاگیا۔ میں ان خوش نصیبوں میں شامل ہوںجنہیں ابن کنول صاحب کی سرپرستی میں ایم۔ فل ۔ اورپی۔ ایچ۔ڈی۔ دونوںکرنے کاشرف حاصل ہے۔ ایم۔فل۔ اورپی۔ایچ۔ڈی۔کے دوران انھوںنے لکھنے کاسلیقہ جس خوش اسلوبی اورفنکارانہ مہارت کے ساتھ سیکھایااورایک ایک باریکی کی نشاندہی کرتے ہوئے مضمون نگاری کی تکنیک، مقالہ نگاری کی تکنیک، تحقیق کے اسرارورموز، زبان وبیان کی سلاست، الفاظ کی ادائیگی کاہنر، عبارت خوانی کی تکنیک، پروف ریڈنگ کاطریقہ اور تھیسس کی ترتیب وپیش کش وغیرہ کی مشق کرائی؛وہ ساری باتیں اپنے آپ ذہن نشیں ہوتی چلی گئیں۔ ابتداسے آخرتک تمام ابواب کوسننااوراصلاح کرتے جانامیرے لئے اس قدرمؤثرثابت ہواکہ آج الحمدللہ اہل علم کے مجمع میں بولنا، مقالہ پیش کرنااورکسی موضوع پرخطاب کرنابارخاطرنہیں ہوتا۔

                پروفیسرابن کنول میں وہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم پائی جاتی تھیںجوایک اچھے استاد، ماہر ادیب، دیدہ ور قلم کار، دوربیں ناقد، کہنہ مشق تخلیق کار، تجربہ کار اسکالراورایک اچھے انسان میں ہونی چاہئیں۔خواہ وہ تحریر ہویاتقریر؛خوبصورت اوردلکش پیرائے میں باتوںکوپیش کرتے اور موضوع کی مناسبت سے معرکۃ الآرابحث کرنے کاوہ ہنرجانتے تھے۔ خاکہ ہویاافسانہ، تحقیق ہوتنقید؛تمام اصناف میں فنکارانہ مہارت کاثبوت دیتے اور ’شگفتگی وسنجیدگی‘ کوبرقراررکھتے تھے۔ اپنے حریفوں کاخاکہ بھی والہانہ اندازمیں انھوںنے تحریرکیاہے؛جوان کے وسیع الظرف ہونے کابین ثبوت ہے۔ وہ اپنے سینے میںایک ہمدرددل بھی رکھتے تھے؛ جوہرلمحہ شاگردوں کے لئے ڈھڑکتاتھا۔بلاتفریق وامتیازتمام شاگردوںکی حوصلہ افزائی، رہنمائی، سرپرستی اورہرطرح کا تعاون ان کی زندگی کے معمول کاحصہ تھا۔ شاگردوںکوان کی صلاحیت کے مطابق روزگاردلانے کی کوشش کرتے رہناان کی عادت سلیمہ تھی۔اللہ رب العزت نے جن نعمتوںسے انھیں نوازہ تھا؛ان پروہ پوری طرح قانع تھے۔سینئرپروفیسربننے کے بعد ایک مرتبہ میں نے عرض کیاکہ اب آپ کوکسی یونیورسٹی کے وائس چانسلرکے لئے کوشش کرنی چاہئے؛توانھوںنے برجستہ جواب دیا،’’ارے نہیں بھئی! اللہ نے جتنانوازہ ہے وہی میرے لئے کافی ہے۔‘‘ اس طرح کی باتیں وہی کرسکتاہے؛جوصابروشاکرہو، قناعت پسندہو،حرص وہوس کاشائبہ بھی جس کے اندرنہ اور ایمانداری سے کام کرنے پرجویقین رکھتاہو۔

                 ایمانداری کی بات آئی ہے تواس تعلق سے بہت سی باتیں ہیںجن کایہاں تذکرکیاجاسکتاہے۔ یہ ایک اچھاموقع ہے کہ قارئین پروفیسرابن کنول کی ان خوبیوں سے واقف ہوں؛جنہوں نے ان کی مقبولیت میں چارچاندلگائے۔ سب سے پہلی اوراہم بات یہ ہے کہ استاذگرامی وقت کے بہت پابندتھے۔شدیدسردی کے موسم میںبھی بلاناغہ صبح نوبجے کی کلاس کے لئے  بھی وقت پرپہنچتے۔ میں نے انھیں کبھی بھی ٹال مٹول کرتے نہیں دیکھا۔ کلاس کاوقت آتے ہی لیکچرشروع کردیناان کی عادت سلیمہ تھی۔ اپنے فرائض منصبی کووقت پرخوش دلی کے ساتھ انجام دیناان کے معمول میں شامل تھا۔ طلبہ کوجووقت دیتے؛اس وقت شعبہ میں یاگھرپربلاتے تووہاں موجودرہتے۔ بہت سے قارئین اس بات سے حیرت زدہ ہوںگے کہ وقت پرکلاس لیناتوڈیوٹی کاحصہ ہے۔ اسے کسی کی خوبی کے طورپرکیسے گناسکتے ہیں؛ توان  کے اس شبہہ کودورکردیناضروری ہے۔ یہ بہت بڑاالمیہ ہے کہ یونیورسٹی کے معتدبہ پروفیسرحضرات کلاس سے غائب رہنے کواپنی خوبیوں میں شامل کرتے ہیں۔ وقت پرکلاس نہ لینا، فرائض منصبی کوپوری ذمہ داری کے ساتھ ادانہ کرنا؛ہندوستانی یونیورسٹیزکے بہت سے اساتذہ کی ایسی غیرذمہ دارانہ حرکت ہے جس کی وجہ سے نسلیں بربادہوجاتی ہیں۔ پروفیسرابن کنول صاحب ہمیشہ کہتے تھے کہ ’’ ایک استادکی شناخت کلاس روم سے بنتی ہے، جوکلاس سے غائب رہتے ہیں؛اس کی مثال اس گدھے کی ہے جونہ گھرکارہتاہے اورنہ گھاٹ کا۔‘‘  آپ مجھے اس بات کاہمیشہ درس دیتے کہ ’’بیٹا!کبھی کلاس سے غائب نہ رہنا!اپنے فرائض کووقت پراداکرنا، ایمانداری اوردیانتداری کے ساتھ کام کرنا، موقع ہاتھ آنے کے باوجودپیسوںمیں خردبردنہ کرنا، مطالعے کی عادت  اورمسلسل لکھتے رہنے کاہنرقلم کارکوبہت آگے پہنچادیتاہے‘‘۔

                ایک مرتبہ این سی ای آرٹی نے مجھے ایک ورکشاپ کے لئے مدعوکیا۔میںنے اے سی سیکنڈکاٹکٹ لیا۔ ورکشاپ مکمل ہونے کے بعدمجھے دلی یونیورسٹی میں ایک طالب علم کے ایم۔فل۔ کاوائیولیناتھا۔ پروفیسرابن کنول صاحب نے کہاکہ آپ ٹکٹ کی رقم این سی ای آرٹی سے لے چکے ہوںگے؛ اس لئے یہاں سے مطالبہ مت کیجئے گا! میں نے کہا،’’ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھاکہ میں یہاں سے ٹکٹ کی رقم کامطالبہ کروںگا، اس لئے کہ میں پہلے ہی یہ رقم وہاں سے وصول چکاہوں‘‘۔ اس کے جواب میں پروفیسرابن کنول صاحب نے کہاکہ بہت سے ایسے پروفیسرحضرات ہیں جو ایک ہی ٹکٹ دیکھاکر رقم کئی کئی اداروںسے وصول لیتے ہیں۔ یہ سن کرمجھے حیرت ہوئی کہ ایک تعلیم یافتہ انسان بھی معمولی رقم کے لئے کس حدتک گرسکتاہے اورچھچھورے پن کامظاہرکرسکتاہے! ساگریونیورسٹی واپس جاکرمیں نے اپنے ایک سینئرساتھی سے اس کاتذکرہ کیاتوانھوںنے کہاکہ ’’این سی ای آرٹی نے ایسے کئی پروفیسروںکوبلیک لسٹڈ کررکھاہے جنہوںنے اے سی سیکنڈکاٹکٹ نکال کراسے کینسل کروادیااورسلیپرکلاس میںسفرکرکے اے سی سیکنڈکلاس کاکرایہ وصول کرلیا! !!‘‘ یہ بات میرے لئے اوربھی حیران کن تھی۔ مذکورہ دونوںواقعات کے تذکرے کامقصدمحض یہ بتاناہے کہ پروفیسرابن کنول صاحب اپنے شاگردوںکی تربیت کس کس طرح کیاکرتے تھے۔ ان کے دل میں یہ جذبہ تھاکہ ان کے شاگردوںکوزندگی کے کسی بھی موڑپرشرمندگی کاسامنانہ کرنا پڑے۔آپ اپنے شاگردوںکوہمیشہ اخلاقیات کادرس دیاکرتے تھے۔اس وقت طالبعوں کواخلاقیات کادرس دینابہت ضروری ہے۔ ایمانداری کا سبق پڑھانااوراس سے قبل خود اس پرکاربندرہناباوقارزندگی بسرکرنے کے لئے ہے۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ اس وقت  بدعنوانی، بے ضابطگی، بے راہ روی، بدخلقی، بدخصلتی، بدزبانی اور زبان درازی جیسی برائیاں عام ہوچکی ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔

                روزنامہ ’انقلاب‘ سے سبکدوش ہونے کے بعدجب میں ڈاکٹرہری سنگھ گورسنٹرل یونیورسٹی، ساگرمیں شعبۂ اردو وفارسی میں اسسٹنٹ پروفیسرکے عہدے پرفائزہوگیاتوراقم الحروف کے خلاف ایک سازشی ٹولہ نے منظم طورپرشرپسندی کاسلسلہ شروع کیا۔اس میں دوکاسہ لیس صحافی، ملازمت کے لیے کوشاں ایک ریسرچ اسکالراورایک پروفیسرپیش پیش تھے۔انگریزی اوراردوکے اخبارات میںبیان بازی، میری کتاب’اردوصحافت آزادی کے بعد‘ میں مولاناابوالکلام آزادکی تاریخ پیدائش کے تعلق سے مدلل بحث کوتنقیدکانشانہ بناتے ہوئے قومی اردوکونسل نئی دہلی سے معمولی رقم جوکتاب کی اشاعت کے لئے وہاں سے ملی؛تھی اس کی واپسی کامطالبہ، دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلرسے میری پی۔ایچ۔ڈی۔ڈگری ردکرنے کامطالبہ، ساگریونیورسٹی میں میرے خلاف آر ٹی آئی اورنہ جانے کہاں کہاںکون کون سی شرارت کی سازش رچی گئی؛اس کے بارے میں اللہ ہی جانتاہے۔معاملہ جب تک راقم الحروف سے متعلق تھاتومیںنے کسی طرح کاجواب دینامناسب نہیں سمجھا؛اس لئے کہ میں پوری طرح مطمئن تھاکہ میں نے جولکھاہے وہ اپنی طرف سے تولکھانہیں ہے،بلکہ مجھ سے پہلے جن محققین نے اپنی اپنی کتابوںمیں اس بحث کوشامل کیاہے؛ان کے حوالے سے میں نے مدلل تحقیقی بحث کی ہے؛اس لئے علمی سطح پرمیں معترضین کوجواب دے دوںگا۔ لیکن ایک صبح ’چوتھی دنیا‘کی ایک رپورٹ کاتراشاپروفیسرابن کنول صاحب نے بھیجا، جس میں اقتدارکے نشے میں چورایک پروفیسرنے سازش کے تحت استاذگرامی کی تصویرلگوائی تھی اورمجھ سے متعلق معترضین کے اعتراضات کوان کی طرف موڑنے کی ناپاک کوشش کی تھی، جس کے بعدمیرے خاموش رہنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ ایک تحقیقی مقالہ’کاسہ لیسی اورتحقیق کاتصادم‘ تحریرکیا، جسے ’چوتھی دنیا‘،  روزنامہ ’ہماراسماج‘ اورماہنامہ ’جام نور‘ دہلی کوارسال کیا۔ ’چوتھی دنیا‘نے بہت سے اہم نکات کوحذف کرکے شائع کیا، جب کہ ’ہماراسماج‘ اورماہنامہ ’جام نور‘ نے من وعن شائع کردیا۔ا س کے لئے میںہماراسماج کے ایڈیٹرجناب خالدانوراورڈاکٹرخوشترنورانی کاشکرگزارہوں۔ اشاعت سے قبل میں نے وہ تحریراستاذگرامی کوارسال کی،توان کی خوشی کی انتہانہ رہی اورانھوںنے جس جملے کااستعمال کیاوہ مجھے آج بھی یادہے ، انھوںنے کہاتھا،’’جس خوش اسلوبی اورسنجیدگی کے ساتھ آپ نے مدلل جواب دیاہے؛وہ قابل تعریف ہے، مجھے آپ سے ایسی ہی امیدتھی‘‘۔ اس کے بعدوہ سازشی ٹولہ پوری طرح سست پڑگیا۔ دوسری طرف دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلرکوپروفیسرابن کنول نے اطمینان بخش جواب دے دیااورقومی اردوکونسل کومیری کتاب پرص کرنے والے معزز ماہرین تعلیمات نے میرے حق میں جواب دے دیا۔ اس طرح اس سازش کاپوری طرح سرکچل گیا۔ ہاں! اس کاسائڈ ایفکٹ یہ ہواکہ ساگریونیورسٹی سے اردوکے تین اسسٹنٹ پروفیسرٹرمنیٹ دئے گئے؛جن میں راقم الحروف بھی شامل تھا؛البتہ جس ریسرچ اسکالرنے آرٹی آئی داخل کی تھی ان کے بارے میں مجھے علم نہیں کہ وہ ملازمت پانے میں کامیاب ہوئے یانہیں۔ اس پورے واقعہ میںپروفیسرابن کنول کاکردارایک محسن، سرپرست اورمحب اردوکے علاوہ ایک باوقاراستاذکاتھا؛جس نے ہرموڑپرمیری مدد کی۔ گرچہ ساگریونیورسٹی نے مجھے دوبارہ تدریسی فریضہ انجام دینے کاموقع دیاتھا؛لیکن پرماننٹ فیکلٹی کے طورپرنہیںبلکہ گیسٹ فیکلٹی کی حیثیت سے۔ قدرت کے خزانے میں کوئی کمی نہیںہے؛اس نے ہم تینوںساتھیوںکودوسری یونیورسٹیوںمیں ملازمت سے سرفرازکیا۔ ساگریونیورسٹی کی ملازمت جانے کے بعداگرسب سے زیادہ کسی کوتکلیف ہوئی تھی؛تووہ ہمارے استاذگرامی پروفیسرابن کنول صاحب تھے۔ اس نازک موڑپرمیری بے پناہ حوصلہ افزائی کی اوربھروسہ دلایاکہ جلدہی اللہ تعالیٰ بہترانتظام بھی فرمائے گا۔ ظاہرہے کچھ دنوںبعد میری تقرری بنارس ہندویونیورسٹی میں ہوگئی۔ یہ ان کی دعائوں کاثمرہ تھا۔

                پروفیسرابن کنول کی خوبیوںکوبیان کرنے کے لئے ایک دفترناکافی ہے۔ ان شاء اللہ رفتہ رفتہ ان سے متعلق یادوںکوقلم بندکرنے کی کوشش کروں گا۔ البتہ یہاں اس امرکی نشاندہی بہت ضروری ہے کہ اللہ رب العزت نے انھیں بے پناہ صلاحیتوںسے نوازہ تھا۔ ان کی افسانہ نگاری، خاکہ نگاری، ان کاسفرنامہ، داستان سے افسانہ تک ان کابیش قیمتی تحقیقی سرمایہ، فن داستان گوئی کے علاوہ سینہ بہ سینہ انھوںنے اپنے ہزاروںشاگردوںکوجوعلم منتقل کیاہے؛اس کی نظیرپیش کرنامشکل ہے۔پروفیسرشمس الرحمن فاروقی پرمنعقدایک سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے انھوںنے کہاتھاکہ کسی بھی ادیب کی پہچان تخلیق سے ہوتی ہے۔ پروفیسرشمس الرحمن فاروقی ایک بڑے ناقدتھے، لیکن ان کوشہرت ان کی تخلیق’ایک چاندتھاسرآسماں ‘سے ملی۔ تخلیق اورتنقیدکایہ واضح فرق مجھ جیسے نوواردوں کے لئے ایک بڑادرس ہے۔ یہی سبب ہے کہ پروفیسرابن کنول نے آخری دنوںمیں تخلیق پرپوری توجہ مبذول کررکھی تھی۔ جس کے نتیجے میں ان کے خاکوںکامجموعہ’’کچھ شگفتگی، کچھ سنجیدگی‘، ان کے سفر کی روداد ’چارکھونٹ‘، ان کے افسانوںکے مجموعے ’تیسری دنیاکے لوگ‘‘ اور’پچاس افسانے‘وغیرہ کتابیں منظرعام پرآئیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعداپنی ہی برادری کی غیرانسانی حرکت سے آپ کبیدہ خاطرتھے۔ گرچہ اپنے شاگردوںکواس کااحساس تک نہیں ہونے دیتے تھے؛لیکن اطلاع تومل ہی جاتی تھی۔ انھیں یہ احساس ہوچکاتھاکہ اب ان کی زندگی کے مختصرایام باقی ہیں؛اسی لئے انھوںنے کام کی رفتاربھی بڑھادی تھی اور انتقال سے چندروزقبل عمرہ کرکے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنے گناہوںکی معافی بھی مانگ آئے تھے۔اللہ رب العزت انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطافرمائے،آمین

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.