’’کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی‘‘خاکوں کا گنجینۂ گوہر

’’کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی‘‘خاکوں کا گنجینۂ گوہر

ابراہیم افسر

IBRAHEEM AFSAR

WARD NO-1,MEHPA CHAURAHA

SIWAL KHAS,MEERUT(U.P)250501

MOB-9897012528

                اُردو ادب میں خاکہ نگاری کا با قاعدہ آغاز مرزا فرحت اللہ بیگ دہلوی کی مشہور تصنیف’’ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی کچھ میری اور کچھ اُن کی زبانی‘‘ سے مانا جاتا ہے۔اس سے قبل تذکروں میں شعرا و ادبا کے تحریری خاکے جا بجا ملتے ہیں۔لیکن ڈپٹی نذیر احمد کے خاکے کو جو شہرت دوام حاصل ہوئی ویسی شہرت کسی خاکے کو نصیب نہ ہوئی۔اس خاکے کو پڑھنے کے بعد مولوی وحید الدین سلیم نے مرزا فرحت اللہ بیگ سے اپناخاکہ لکھنے کی گزارش کی۔اس گزارش کو پورا کرنے کے لیے فرحت اللہ بیگ نے ایک خاکہ نما مضمون ’’ایک وصیت کی تعمیل‘‘تحریر کیا۔اس کے بعد اُردو میں خاکہ نگاری کی روایت نے فروغ پایا۔مولوی عبدالحق نے ’’نام دیو مالی‘‘اور رشید احمد صدیقی نے ’’کندن‘‘کا خاکہ لکھ کر حاشیائی کرداروں کو جائز مقام عطا کیا۔

                COVID-19جیسی مہلک بیماری کے سبب دنیا کے بیش تر ممالک میںLOCKDOWNنافذ کیا گیا۔ ہندوستان میںبھی 24مارچ 2020کو حاکمِ وقت نے 21دن کے LOCKDOWNکا اعلان کیا۔اس دوران کسی کو کہیں بھی آنے جانے اور کسی سے ملنے کی مناہی تھی۔دو گز کا فاصلہ اور ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا۔لاک ڈاؤن میںاُردو ادیبوں کو گھر بیٹھ کر کام کرنے کا موقع کسی نعمت سے کم نہ تھا۔کسی نے افسانے لکھے،کسی نے شاعری کی،کسی نے تنقید میں ہاتھ آزمایاتو کسی نے تحقیقی گتھیوں کو گھر بیٹھ کر سلجھایاتو کسی نے اپنے ہم عصرساتھیوں کو یاد کرتے ہوئے خاکے تحریرکیے۔ پروفیسر ابن کنول نے بھی اسی لاک ڈاؤن میں ’’کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی‘‘عنوان سے اپنے اساتذہ ،رفیقوں اور معاصرین کے خاکے تحریر کیے ۔موصوف نے کتاب کا انتساب عدالتی کاروائی سے قبل حلفی بیان کی شکل میں معنون کرتے ہوئے لکھا’’جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا سچ کے سِوا کچھ نہیں کہوں گا یقین کریں یا نہ کریں، آپ کو اختیار ہے۔‘‘۔موصوف نے کتاب میں شامل خاکوں کے بارے میں اپنے پیش لفظ نما ’’معذرت نامہ‘‘ میں مزید معلومات قارئین تک پہنچاتے ہوئے لکھا:

  ’’اس کتاب میں جو خاکے شامل ہیںان میں میرے قابل احترام اساتذہ ہیں، کچھ ایسی شخصیات ہیں جن سے مجھے عقیدت ہے یا جن کا میں احترام کرتا ہوں ۔ کچھ میرے وہ دوست ہیں جن کے ساتھ زندگی کا طویل سفر طے کیا ہے، کچھ خرد دوست ہیں جو مجھے بہت عزیز ہیں۔ اس میں ایک خاکہ جو میں نے اپنے اسکول ’منٹوسرکل‘‘کے صد سالہ جشن پر لکھا تھا وہ شامل ہے۔ منٹو سرکل میری زندگی کا اہم حصہ ہے۔ آخری خاکہ ایک ملازم پر ہے، اس کے لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایسی شخصیات کی کتنی ضرورت ہوتی ہے جنھیں ہم کمتر سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ان خاکوں میں جو کچھ میں نے لکھا ہے اس میں ایک ایک لفظ سچ ہے۔ میرا مقصد اپنوں کو اپنی نظر سے دیکھ کر پیش کرنا تھا،کسی کی تضحیک یا دل آزاری میرا مقصد نہیں ہے۔ میں رشتوں کو مجروح نہیں کرنا چاہتا،رشتے جو خون کے نہیں ہوتے بڑی مشکل سے بنتے ہیں۔مجھے اپنے اساتذہ سے بھی عقیدت ہے اور مجھے اپنے دوست بھی عزیزہیں۔ اگر کہیں قلم سے لغزش ہو گئی ہو تو صمیم قلب سے معذرت خواہ ہوں۔‘‘(کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی،مرکزی پبلی کیشنز،جامعہ نگر،نئی دہلی،2020،ص11)

                پرفیسر ابن کنول کی کتاب میں25خاکے شامل ہیں۔ انھوں نے سب سے پہلا خا کہ آرٹ اور ریاضی کے اُستاد ’’منشی چھٹّن‘‘کا تحریر کیا ہے۔اس خاکے میں موصوف نے قصبہ گنّور، اُردو میڈیم اسلامیہ اسکول اوردیگر اساتذہ کی دل چسپ یادیں قارئین کے سامنے پیش کی ہیں۔یاد ِماضی کے اوراق کو پلٹتے ہوئے ابن کنول قارئین کو اس زمانے میں لے جاتے ہیں جہاں صرف صداقت اور سچائی کا بول بالا تھا۔اپنے اُستاد کی خوبیوں اور خامیوں کو بھی انھوں نے طشت از بام کیا ہے۔ابتدائی زمانے میںاپنے اُستاد سے پڑھا ہوا سبق وہ اب تک نہیں بھولے ہیں۔گنّور سے دہلی آئے ہوئے انھیں ایک زمانہ ہو گیا ہے لیکن ان کی یادوں میں اپنے مہرباں و مشفق اُستاد کی تصویر گردش کرتی رہتی ہے:

’’دہلی میں آئے ہوئے بھی چار دہائیوں سے زیادہ وقت گزر گیا ،لیکن چھٹّن منشی جی کا چہرہ اور ان کی باتیں اب بھی یاد ہیں۔ سنا ہے بہت بوڑھے ہو گئے ہیں۔ میرے ذہن میں وہ ابھی بوڑھے نہیں ہوئے ہیں۔ ان کی وہی صورت اور وہی مشفقانہ باتیں مجھے یاد دلاتی رہتی ہیں۔انسان بچھڑ جاتا ہے لیکن اس کا کردار اسے زندہ رکھتا ہے۔چھٹّن منشی جی ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے۔‘‘(ایضاً،ص16)

                ’’منٹو سرکل‘‘خاکے میں پروفیسر ابن کنول نے اپنی ابتدائی تعلیم کے گہوارے کو قلمی خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ اس خاکے میں منٹو سرکل کی سنہری یادوں کو قلمی قالب پہنایا گیا ہے۔اس خاکے میں موصوف نے ایماندارانہ طریقے سے اپنی حرکت و عمل کو قارئین کے سامنے پیش کیا۔خاکے کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ منٹو سرکل کی تعلیم و تربیت کا اثر اب تک ان کے ذہن میں نقش ہے۔

                پدم شری قاضی عبدالستارکے خاکے میں پروفیسر ابن کنول نے اپنے افسانہ نگار بننے کی روداد کے علاوہ قاضی صاحب کی پر وقار شخصیت کا ایسا نقشہ کھینچا گویا قاضی صاحب ہمارے سامنے چہل قدمی کر رہے ہوں۔خاکے کی ابتدا میں ہی موصوف نے فکشن بالخصوص افسانوں کے بارے میںقاضی صاحب کے اقوال کو نقل کیا ہے۔قاضی صاحب کی سرپرستی میں جن نوجوان افسانہ نگاروںنے فکشن کی دنیا میں قدم رکھا انھیں قاضی صاحب کے گروہ کا آدمی تسلیم کیا گیا۔   ابن کنول نے تو باقاعدہ قاضی صاحب سے افسانے لکھنے کا ہنر سیکھا تھا۔قاضی صاحب کے عادات و اطوار کا بیان بھی دل چسپ ہے۔ افسانے کی طرح ان میں جزئیات نگاری سے کام لیا گیا ہے۔موصوف کے گھر میںزیتون کے تیل کے استعمال کی بات بہت معمولی تھی لیکن قاضی صاحب کی محبت کا یہ عالم تھا کہ انھیں فون پر اس کے نقصان بتادیتے ہیں۔پروفیسر ابن کنول نے قاضی صاحب کے اہم افسانوں اور ناولوں کو ایک لڑی میں پروتے ہوئے لکھا:

’’قاضی صاحب نے زندگی چاہے’’غالب‘‘کی طرح گزاری ہو ،لیکن ’’خالد بن ولید‘‘کی طرح رسولِ خدا سے محبت کرتے تھے،مجاہدانہ انداز’’صلاح الدین ایوبی‘‘جیسا تھا،’’دارا شکوہ‘‘سے گنگا جمنی تہذیب کا درس لیا تھا۔ وہ ’’شب گزیدہ ‘‘فن کار ’’غبار شب‘‘میں بھٹکتے ہوئے’’بادل‘‘کو ’’مجّو بھیا‘‘کا پیغام دیتا تھا کہ اب کسی ’’حضرت جان‘‘کا’’ پہلا اور آخری خط ‘‘نہیں آئے گا۔’’رضو باجی‘‘کی ’’آنکھیں‘‘پتھرا گئیں۔’’پیتل کا گھنٹہ‘‘بس ’’ایک کہانی‘‘بن چکا تھا۔ ’’نیا قانون‘‘آنے کے بعد ’’میراث‘‘میں بس ایک ’’دیوالی‘‘کا دیا بچا تھاجو ’’لالہ امام بخش‘‘نے ’’ٹھاکر دوارے‘‘کی ’’مالکن‘‘ کے آگے رکھ دیا تھا، جس کی مدھم روشنی سے’’تاجم سلطان‘‘کا حسن دمک رہا تھا، لیکن ’’بھولے بسرے‘‘کبھی’’مجریٰ‘‘ہوتا تھا۔‘‘(ایضاً، ص34تا35)

                پروفیسر قمر رئیس کے خاکے میں موصوف نے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کیا ہے۔پروفیسر قمر رئیس نے موصوف کی تعلیم و تربیت کا انتظام دہلی یونی ورسٹی میں کیا تھا۔پروفیسر قمر رئیس نے موصوف کی قدم قدم پر اپنی اولاد کی طرح تربیت کی ۔اس خاکے کامطالعہ کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسر ابن کنول کی شخصیت ،ذہنی تربیت اور دال روٹی اورگوشت بوٹی کے بند و بست میں قمر رئیس کا بہت بڑا کردار ہے۔قمر رئیس،کئی مرتبہ بٹلہ ہاؤس ابن کنول سے ملنے جاتے تھے۔ 1990میںجب دہلی میں فرقہ وارانہ  تناؤ ہواتو قمر رئیس وِویک وہار سے بٹلہ ہاؤس ابن کنول کے پاس رہنے کے لیے آئے تھے ۔موصوف نے اس خاکے میںقمر رئیس کے کئی واقعات قلم بند کیے ہیں جنھیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ طلبہ سے کتنی محبت کرتے تھے۔کمیونسٹ نظریات کے حامی ہونے کے باوجود یاد اللہ سے دور نہیں تھے۔1986میں ترقی پسند تحریک کی گولڈن جبلی تقریبات کو کامیاب بنانے والے بھی قمر رئیس ہی تھے۔گوپی چند نارنگ اور قمر رئیس کی ادبی چشمک کسی سے چھپی نہیں لیکن اس کے باوجود دونوں ادبی بزرگ ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے۔ابن کنول نے قمر رئیس کی پر وقار شخصیت کو قلمی جامہ پہناتے ہوئے لکھا:

’’قمر صاحب کی شخصیت بہت پُر کشش تھی۔دلیپ کمار کی طرح خوب صورت پٹھان تھے،دراز قد، ،نکھرتا رنگ، چمک دار مسکراتی آنکھیں،پیشانی پر لہراتے سیاہ بال، جنھیں تھوڑی تھوڑی دیر میں اُنگلیوں سے اوپر کرتے ،خاموش رہتے تو صوفیانہ استغراق، بولتے تو بلبل کی سی چہچہاٹ ۔علی گڑھ میں مجھے قاضی صاحب کی سر پرستی حاصل تھی،دہلی میں قمر رئیس جیسا شفیق انسان مل گیا۔‘‘(ایضا،ص 42)

                ڈاکٹر تنویر احمد علوی کے خاکے میں ابن کنول نے ان کی ذہانت اور دانش و بینش کے قلمی نقشے صفحۂ قرطاس پرکھینچے ہیں۔ڈاکٹر تنویر احمد علوی کیرانہ سے دیو بند،یہاں سے اسارا مسلم انٹر کالج،پھر علی گڑھ،اس کے بعد دہلی یونی ورسٹی،پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور آخر میں دہلی یونی ورسٹی سے رٹائر منٹ کے سفر کو موصوف نے اس طرح بیان کیا گویا ہر واقعہ کے ہم چشم دید گواہ ہوں۔پرانی دہلی کے محلہ چوڑی والان میں ان کی رہایش تھی۔ابن کنول ان کی طرزِ رہایش کے بارے میں کہتے ہیں کہ ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے گاؤں دیہات میں بچپن گزاراتھا ،لیکن دہلی آنے کے بعد بھی اس میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی۔یہ جس مکان میں رہتے تھے وہ کافی لمبا چوڑا تھا۔چار پائی پر بیٹھے بیٹھے ہی وہ طالب علموں کو مشورہ دیتے تھے۔یہاں تک کہ بہت سے طالب علم ان کے گھر پر ہی آ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر چلے گئے۔ابن کنول نے بھی اپنا ایم فل  اورپی ایچ ڈی کا مقالہ انھیں کی زیر نگرانی مکمل کیا تھا۔علوی صاحب کے اندر تحقیقی و تنقیدی اور شعری ذوق ابتدا سے ہی تھا۔پرانی دہلی سے والہانہ شغف اور ان کی انکساری کے بارے میں ابن کنول لکھتے ہیں:

’’علوی صاحب دہلی آکر دہلی کے ہی ہو رہے۔ جن گلیوں میں ذوق اور غالب بستے تھے وہیں قیام کیا۔ دہلی کی گلیوں سے ذوق کی طرح محبت ہو گئی۔ پچاس سال سے زیادہ وقت عمر کا دہلی میں گزارا ،لیکن شاہ جہان آباد کی فصیل سے باہر نہ گھر کرایے پر لیا اور نہ بنایا،جب کہ کتنے ہی دہلی والے دہلی اور اس کی تہذیب سے محبت کا دعوا کرتے رہے لیکن دہلی سے بے وفائی کرکے جمنا پار جا بسے۔ علوی صاحب نے دہلی کی تاریخ و تہذیب پر خصوصی توجہ دی اور اس کی تہذیبی اقدار کو محفوظ کرنے کی حتی الامکان کوشش بھی کی۔۔۔۔علوی صاحب کی رہایش دہلی کی شاہی جامع مسجد سے تھوڑے فاصلے پر چوڑی والان کی خلیق منزل میں تھی۔ پرانے زمانے کی بنی حویلی کے ایک حصے میں علوی صاحب اپنی کتابوں کے بیچ محو مطالعہ رہا کرتے تھے۔ چوڑی والان میں رہنے کی وجہ سے علوی صاحب کو چوڑی والیوں سے محبت تھی۔ چوڑی والیاں بھی ان کی علمیت اور بھولے پن کا بہت فائدہ اُٹھاتی تھیں۔‘‘(ایضاً،ص 63)

                پروفیسرگوپی چند نارنگ کے خاکے میں ابن کنول نے اپنے قلم سے مختلف رنگ بھرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔1995میںجب دہلی یونی ورسٹی سے نارنگ صاحب سبک دوش ہوئے تو ان کے اعزاز میں ’’ارمغانِ نارنگ‘‘ کا ڈول ڈالا گیا۔اسی کے بعد ابن کنول نے اپنے رشتوں کو نارنگ صاحب سے جوڑنے کا کام شروع کیا۔ابن کنول لکھتے ہیں کہ نارنگ صاحب سے بہت سے لوگوں کا نظریاتی اختلاف تھا لیکن اس کے باوجود بھی ان کے معترضین ان کی صلاحیتوں کا لوہا مانتے تھے۔ پروفیسرخواجہ احمد فاروقی کے ساتھ مل کرانھوں نے دہلی یونی ورسٹی کے شعبۂ اُردو کو بام ِعروج بخشا۔نارنگ صاحب سے قبل ساہتیہ اکیڈمی کا صدر کوئی اُردو والا نہیں بن پایا تھا۔لیکن نارنگ صاحب نے اپنی محنت،جستجو اور لگن کے سبب وہ مقام حاصل کیے جنھیں حاصل کرنے کے لیے لاکھ جتن کرنے پڑتے ہیں۔پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کے رٹائر منٹ کے بعد نارنگ صاحب ہی اکیلے شخص ہیں جنھوں نے ان کی جگہ کو پُر کیا۔لیکن نارنگ صاحب کے رٹائر منٹ کے بعد دہلی یونی ورسٹی کے شعبۂ اُردو میں وہ جگہ آج بھی خالی ہے ۔کیوںکہ گوپی چند نارنگ جیسا دوسرا آدمی ابھی تک نہیں مل پایا ہے ۔گوپی چند نارنگ کی ادبی خدمات اور ان کی اُردو دوستی کے بارے میں پروفیسر ابن کنول رقم طراز ہیںـ:

’’ہم ذاتی یا نظریاتی اختلافات رکھتے ہوں، لیکن یہ سچ ہے کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اُردو زبان کے لیے اور اُردو ادب میں جو کا م انجام دیاہے وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ساہتیہ اکیڈمی کی صدارت کے عہدے تک کسی اُردو والے کا پہنچنا ہی معجزہ ہے۔ ساہتیہ اکیڈمی میں نارنگ صاحب کی وجہ سے ہی اُردو کو منفرد مقام حاصل ہے۔ پسند اور نا پسند ہر شخص کی ہوتی ہے۔ ہم بھی اگر اس عہدے پر ہوتے تو اپنی مرضی کے کنوینر بناتے اور اپنے چاہنے والوں کو ایوارڈ سے نوازتے۔ یہ تو انسانی فطرت ہے، اس کی شکایت غیر انسانی ہے۔ نارنگ صاحب کو جاننا ہے تو ان کی انسانی کمزوریوں کو ہٹا کر دیکھیے۔ خالص اُردو کے ادیب کے طور پر دیکھیے،تب ان کے قد کا اندازہ ہوگا۔‘‘(ایضاً،ص78)

                صوفی شاعر عنوان چشتی کے خاکے میں موصوف نے ان کی اُستادی کے علاوہ صوفیانہ مزاج اور شاعرانہ کاوشوں سے قارئین کو روبرو کرایا ہے۔ابن کنول نے پروفیسر عنوان چشتی کی ادبی خدمات بالخصوص تنقیدی صلاحیتوں کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میںمدرس کے ساتھ عنوان چشتی منگلور میں درگاہ حضرت شاہ سید عثمان جہاںگیر کے سجّادہ نشیںبھی تھے۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ تنقید میں کار ہائے نمایاں انجام دیے۔تصوف ان کا اوڑھنا اور بچھونا تھا۔ادب اورروحانیت سے ان کا گہرا تعلق تھا۔بقول ابن کنول ایک وقت ایسا بھی آیا جب عنوان چشتی نے ادبی مشاغل سے تقریباً کنارہ کر لیا اور خانقاہ آباد کر لی۔پہلے ان کی نگاہ میں ادب قدر اول تھا اور تصوف قدر دوم،بعد میں یہ صورت حال ہوئی کہ تصوف قدر اول ہو گیا اور ادب قدر دوم۔

                حیات اللہ انصاری کے بارے ابن کنول نے جو باتیں لکھی ہیں وہ کافی اہم ہیں۔انصاری صاحب مجاہدِ آزادی کے ساتھ صفِ اوّل کے صحافی بھی تھے۔کانگریس کے ترجمان اخبار’’قومی آواز‘‘کے وہ مدیر تھے۔انھوں نے ’’دس دن میں اُردو ‘‘سیکھنے کا قاعدہ بھی لکھا تھا۔علاوہ ازیں حیات اللہ انصاری ایک کامیاب فکشن نگار تھے۔پریم چند کی روایت کو آگے بڑھانے میں انھوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ممبر پارلیامنٹ کی حیثیت سے انھوں نے اُتر پردیش میںاُردو کو جائز مقام اور حق دلانے کے لیے آواز بلند کی اور اس کے لیے انھوں نے بیس لاکھ لوگوں کے دستخط کرا کر صدر جمہوریہ کے پاس ارسال کیے۔کمیونسٹ نظریات کے حامی ہونے کے باوجود انھوں نے تا عمر گاندھیائی نظریات کی پاسداری کی۔ابن کنول نے ان کے افسانے ’’آخری کوشش ‘‘کو پریم چند کے افسانے ’’کفن‘‘ پر ترجیح دی ہے۔

                ’’عصمت آپا‘‘کے خاکے میں ابن کنول نے لکھا ہے کہ ان کی وضع قطع کی وجہ سے انھیں فلم ’’جنون ‘‘میں ایک اہم کردار ملا۔اُردو کے بڑے افسانہ نگاروںسعادت حسن منٹو،کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی کے بعد عصمت کا نام لیا جاتا ہے۔ ابن کنول کے عصمت آپا سے تعلق علی گڑھ کے زمانے سے تھے۔عصمت آپا بھی اپنے آپ کو عبداللہ ہال کی کمسن لڑکی سمجھتی تھیں۔جب وہ علی گڑھ آتیں تو نو جوان افسانہ نگار ان سے افسانے کی فنی باریکیوں پر خوب باتیں کرتے ۔ لیڈی چنگیز خاں بھی نئے لکھنے والوں کو کار آمد اور مفید مشورے دیتیں۔ایک بارجب ابن کنول نے ان سے معلوم کیا کہ آپ تو ترقی پسند افسانہ نگار ہیں لیکن رومانی اورفلمی رسالوں کے لیے بھی لکھتی ہیں؟انھوں نے برجستہ کہا:

’’میں اپنے ساتھ بہت سے قلم رکھتی ہوں،جس رسالے کو جس طرح کے افسانے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کا قلم اُٹھاتی ہوں اور افسانہ لکھ دیتی ہوں۔ایک نظر یے میں بندھ کر افسانہ نہیں لکھا جاتا۔ہر طرح کے تجربات ہونے چاہئیں۔‘‘(ایضاً، ص98)

                محمد عتیق صدیقی کے خاکے میں ابن کنول نے ایک ایسے ادیب کے درد کو ساجھا کیا جس کے سامنے ان کی کتاب ’’گل کرسٹ اور اس کا عہد‘‘کو دوسرے ہم نام لوگوں نے اپنے نام سے متعارف کرایا۔ابن کنول سے ان کا تعارف ان کے تحقیقی مقالے کی وجہ سے ہوا۔عتیق صدیقی نے جنگِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔جیل میں ہی انھوں نے ’’دی عرب اویکنگ‘‘کتاب لکھی جسے ’’رسالہ نگار‘‘میں شائع کرایا۔انھوں نے انڈین ائیر فورس اور انڈین آرمی ایلائنسز میں بھی کام کیا۔عتیق صدیقی نے تا عمر اُردو کے فروغ کے لیے کام کیے۔

                ’’عینی آپا‘‘کے خاکے میںابن کنول نے قرۃالعین حیدر کی شخصیت اور ان کے رتبے پر خامہ فرسائی کی ہے۔ابن کنول لکھتے ہیں کہ عینی آپا کے پاس کوئی شخص اس لیے نہیں جاتا تھا کہ کہیں ’’وہ آگ کا دریا ‘‘بن کر برس نہ پڑیں۔جب کہ عینی آپا کی شخصیت اس کے متضاد تھی۔وہ دو ٹوک بات کرنے والی خاتون تھیں۔بے شک انھوں نے اُردو میں لکھا لیکن مغربی طرزِ روش ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔انگریزی کتابیں پڑھنا ،انگریزی میں باتیں کرنا انھیں بہت پسند تھا۔اس کی خاص وجہ ان کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ انگریزی میں ہونا تھا۔ادبی ماحول انھیں گھر سے ہی ملا۔والد سجاد حیدر یلدرم اور والدہ نذرِ سجاد حیدر اُردو کے مایہ نازادیب تھے۔آزاد خیالی ان کے روح میں سرایت کر چکی تھی۔دورانِ انٹرویو اگر سوال ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا تو وہ اناپ شناپ بولنے لگتی تھیں۔لیکن ابن کنول سے ان کی ملاقاتیں اور باتیں خوش گوار ماحول میں ہوتیں۔جب بھی عینی آپا ان سے ملتیں تو بڑی ہی مشفقانہ انداز کے ساتھ پیش آتیں۔عینی آپا کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں کہ انھیں اپنے لکھے پر بات کرنا پسند نہیں تھا۔ان کا ماننا تھا کہ صاحب سوال پہلے ان کے لکھے کو پڑھے اور ناقدین سے گفتگو کرے۔ابن کنول کا یہ بھی ماننا ہے کہ عینی آپا مغرور نہیں تھیں بل کہ انھیں مغرور سمجھ لیا گیا۔

                ’’شگفتہ مزاج محمد زماں آزردہ‘‘کا خاکہ بہت ہی معلوماتی اور دل چسپ ہے۔پروفیسر زماں آزردہ کے بارے میں ابن کنول کا خیال ہے کہ ان کے تھیلے میں قسم قسم کے میوے بھرے رہتے ہیں اور دوستوں کو باری باری سے ان کا ذائقہ چکھاتے ہیں۔زماں صاحب کو فوٹوگرافی کا شوق ابتدا سے ہے۔ماریشس اور لندن کے سفر کے دوران کے حیرت انگیز واقعات کوجس انداز میں بیان کیا گیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زماں صاحب مناظرِ قدرت کے علاوہ مناظرِ چشم کے بھی شوقین ہیں۔صوم و صلاۃ کی پابندی انھوں نے سفر میں بھی کی اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کی۔زماں صاحب دورانِ سفر سنجیدہ نہیں ہوتے بل کہ ماحول کو خوش گوار بنانے کی ممکن کوشش کرتے ہیں ۔مرزاسلامت علی دبیر پر تحقیقی مقالہ لکھنے کے باعث زماں آزردہ نے لکھنؤکی گلیوںکی خاک بھی چھانیں۔لیکن شاعری کے مقابلے میں ان کے انشائیے خاصے کی چیز ہیں۔ابن کنول کی زماں آزردہ سے 1984میں پہلی ملاقات کشمیر یونی ورسٹی میں انٹرویو کے دوران ہوئی۔موصوف کی نظر میںزماں آزردہ کی داڑھی ان کی شگفتگی اور سنجیدگی کا حسین مرقع ہے۔

                ایڈوکیٹ اے ۔رحمن کے خاکے میں ابن کنول لکھتے ہیں کہ جب میں نے پہلی مرتبہ انھیں دیکھا تو پہلی ہی نظر میں وکیل عبدالرحمن مجھے کسی پڑھے لکھے فقیر کی مانند لگے جو زور زور سے چیخ کر اپنا حق مانگ رہا ہے۔لیکن ابن کنول کے سامنے حقیقت آنے کے بعد ان کی شخصیت اور علم دوستی کے سبب ان سے بار بار ملنے کو دل چاہا۔ان کی اُردو نوازی کے بارے میں موصوف لکھتے ہیں کہ ان کی اُردو زبان کے لیے کوششیں لائقِ تحسین اور لائقِ احترام ہیں۔عالمی اُردو ٹرسٹ کے ذریعے انھوں نے اُردو کی کتابوں کو پاکٹ سائز میں شائع کیا۔اخبارات اور رسائل میں اُردو کی بقا کے لیے کالم نویسی ان کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔اپنی پہلی ملاقات کا منظر اور اے۔رحمن کی شخصیت کا جو خاکہ ابن کنول نے کھینچا ہے اسے ایک بار ضرور پڑھنا چاہیے:

’’انجم عثمانی سے بات چیت کے دوران ایک عجیب حلیے کا آدمی داخل ہوا،بڑے بڑے بال بڑھی ہوئی داڑھی،آتے ہی اتنی بلند آواز میں قوت کے ساتھ سلام کیا جیسے سلام کیا کیا ہو،سلام دے کر مارا ہو،اگر جسم پر معقول اور نفیس لباس نہ ہوتا تو میں واقعی سمجھتا کہ کوئی بد دماغ فقیر ہے ۔ایسے فقیروں کی چیخ کر بولنے کی عادت ہی ہوتی ہے ۔وہ تیز آواز سے لوگوں کو ڈراتے بھی ہیں اور یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ان کا براہ راست اللہ تعالی سے قریبی تعلق ہے۔میں نے سوچا کہ کوئی پڑھا لکھا فقیر ہے۔چیخ کر اس لیے بولتا ہے کہ عادت سے مجبور ہے۔‘‘(ایضاً،ص128)

                ’’آخری ترقی پسند:علی احمد فاطمی‘‘خاکے میں موصوف نے پروفیسر علی احمد فاطمی کی علمی و ادبی شخصیت کے علاوہ ان کے اسفار و سمینار پر بھی گفتگو کی ہے۔ ابن کنول لکھتے ہیں کہ علی احمد فاطمی کے نام کی وجہ سے یہ دونوں جگہ(شیعہ اور سنّی)کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔سید احتشام حسین نے بھی ان کے نام کی وجہ سے دھوکا کھایا اور ایم۔ اے اُردو میں کرنے کا مشورہ دیا۔علی احمد فاطمی الہ آباد یونی ورسٹی میں پروفیسر سید عقیل رضوی کے شاگرد تھے لیکن علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ان کے لیے دانش گاہِ ثانی کے مانند تھی۔ترقی پسند نظریات کے حامی لوگوں سے ملنا ان کا شغل تھا۔فاطمی صاحب کی پی ایچ ڈی مکمل بھی نہ ہوئی تھی لیکن انھوں نے ’’بیس کہانیوں کا انتخاب ‘‘شائع کر اپنے آپ کو بہ طور ناقد پیش کیا۔سینٹ جانس کالج آگرہ میں ملازمت کے بعدسید عقیل رضوی کی بدولت الہ آباد یونی ورسٹی میں اُستاد مقررہوئے۔یہیں سے بہ حیثیت پروفیسر رٹائر بھی ہوئے۔ابن کنول ،فاطمی صاحب کی علمیت اور ادبیت کے بارے میں لکھتے ہیںکہ وہ سمیناروں میں خوب شرکت کرتے ہیں۔لیکن کسی سمینار میں جانے سے قبل مقالہ تیار کرنا آسان نہیں۔وہ اپنے طلبہ کے خیال کے علاوہ ان کی ترقی کے لیے ہمیشہ فکر مند بھی رہتے ہیں۔دہلی میں منعقد ہونے والے سمیناروں میں اپنے شاگردوں کو ذاتی خرچوں پر ساتھ لاتے ہیں۔

                ’’مالک مکان:پیغام آفاقی‘‘کے خاکے میں موصوف لکھتے ہیں کہ پیغام آفاقی اُردو ادب کا باقاعدہ طالب علم نہیں تھا۔ بل کہ علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے انھیں اُردو ادب میں دل چسپی پیدا ہوئی۔یہ دل چسپی ان کا شوق اور جنون بن گئی۔پیغام آفاقی نے سول سروس میں جانے کے بعد اپنے شوق کو مزید پروان چڑھایا۔شاعری(شعری مجوعہ درندہ) اور فکشن (پلیتہ، مکان وغیرہ)میں نام پیدا کیا۔ پیغام آفاقی جب تک علی گڑھ میں رہے انھیں قاضی عبدالستار کے علاوہ اپنے ہم خیال لوگوں کا ساتھ ملا۔آئی پی ایس ہونے کے باوجود ان کی شخصیت ادبی تھی۔ابن کنول لکھتے ہیں کہ اپنے ساتھیوںکی سب سے زیادہ مدد کرنے والا پیغام آفاقی ہی تھا۔ موصوف نے ان کی ادبی اور سماجی مددکے کئی قصے اس خاکے میں بیان کیے ہیں۔پیغام آفاقی نے اُردو کی ترویج و اشاعت کے لیے کئی ڈاکیومینٹری فلمیں بھی بنائیں ۔ایک فلم میں تو ابن کنول نے بھی کردار ادا کیاتھا۔

                ’’ڈاکٹر جلال انجم‘‘کے خاکے میں ابن کنول نے ایسے ایسے قصے تحریر کیے ہیں قارئین ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جائیں۔میرٹھ ،لال قلعہ اور بہادر شاہ ظفر کے تعلق سے موصوف نے سنجیدہ اور شگفتہ باتیں لکھی ہیں۔موصوف سے ان کے دیرینہ مراسم تھے۔مزے کی بات یہ ہے کہ ابن کنول اپنے دوستوں کے ہم راہ ان کی شادی میں میرٹھ تشریف لے گئے ۔ جلال انجم کے گلے میں پڑے نوٹوں کے ہار سے دہلی سے میرٹھ تک کا کرایہ وصولا۔جلال انجم کو کھانا بنانے کا بہت شوق تھا۔جلال انجم دہلی حکومت میں اُستاد کی حیثیت سے کام کرتے تھے اور ابن کنول اس وقت دہلی یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ دونوں کی رہایش بٹلہ ہاؤس میں تھی۔یار لوگ روزانہ جمع ہوتے اور ادبی محفلیں خوب جمتی تھیں۔ابن کنول لکھتے ہیں کہ سینٹ اسٹیفن ہسپتال میںجلال انجم نے آخری سانس ان کے سامنے لی۔انھوں نے جلال انجم کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ شعر درج کیا:

وہ گیا جس سے بزم تھی روشن

شمع جلتی ہے، کیوں شبستاں میں

                ’’ترقی پسند رومانی شاعر:فاروق بخشی‘‘ خاکے میں موصوف نے فاروق بخشی کی شاعری اور تنقیدپر بے باک رائے کا اظہار کرنے کے علاوہ ان کے ساتھ مشاعروں میں گزارے گئے اوقات کا تذکرہ شگفتہ اور دل چسپ انداز میں کیاہے۔اُردو اکادمی دہلی کی جانب سے لال قلعہ میں منعقد مشاعرے کی روداد ابن کنول صاحب نے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد رات کے دو بجے لال قلعے سے بٹلہ ہاؤس تک فاروق بخشی کے ساتھ جلال انجم ،شمس تبریزی اور خود ابن کنول پیدل مارچ کرتے ہوئے آئے۔راستے بھر صرف مشاعرے کی واہ واہ کا تذکرہ تھا ۔لیکن فاروق بخشی کو پیدل چلنے والے ساتھیوں کی آہ کا احساس نہیں تھا۔فاروق بخشی سے ابن کنول کی پہلی ملاقات دہلی جامع مسجد واقع مکتبہ جامعہ کے دفتر میں ہوئی تھی۔فاروق بخشی کی علم دوستی کے بارے میں موصوف لکھتے ہیں کہ انھیں لکھنے کے ساتھ ’’ادب کرنے ‘‘پر یقین ہے۔ اپنی نوجوانی کے دنوں میں انھوں نے ’’قلم زاد‘‘نامی تنظیم کا ڈول ڈالا تھا۔اس خاکے میں موصوف نے ان کی عشق مزاجی ،رومانی شاعری اور شعر سنانے کے فن پر طوالت کے ساتھ لکھا ہے۔

                ’’ارتضیٰ کریم :ہمدم دیرینہ‘‘خاکے میں ابن کنول نے پروفیسر ارتضیٰ کریم کی شخصیت کے ہر پہلو پر قلمی باتیں کی ہیں۔در اصل دہلی یونی ورسٹی میں ارتضیٰ کریم کو ایم۔فل اورپی ایچ ڈی میں داخلہ لینے کا مشورہ ابن کنول نے ہی دیاتھا۔یہیں سے ان دونوں کی دوستی پروان چڑھی۔لیکن ارتضیٰ کریم ،ابن کنول کو رسالہ’’آہنگ‘‘میں کام کرنے کی وجہ سے پہلے سے ہی جانتے تھے۔اس رسالے میں ابن کنول کے کئی افسانے شائع ہو چکے تھے۔ارتضیٰ کریم میں احتجاجی رنگ و آہنگ ابتدا سے ہی تھا۔غالب انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی میں منعقد ہ ہونے والے سمیناروں میں طلبہ کو سب سے بعد میں کھانا دیا جاتا تھا۔اس نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے والے ارتضیٰ کریم ہی تھے۔ارتضیٰ کریم کی ادبی سرگرمیوں اور فعالیت کے سبب انھیں وہ سب کچھ حاصل ہوا،جس کا خواب ہر انسان دیکھتا ہے۔ ان کی ادبی سرگرمیوں اور فعالیت کی وجہ سے اساتذہ کی نظر میں ان کا قد دن رات بڑھتا گیا۔بہار سے دہلی آنے کے بعد ارتضیٰ کریم نے کبھی پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ارتضیٰ کریم کی تصنیفات اور ترتیب شدہ کتابوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ابن کنول لکھتے ہیں کہ ان کی کتابوں کا وزن پچاس کلو سے بھی زیادہ وہوگا۔اور سوتے وقت بھی ان کا دماغ چلتا ہے ۔اپنی ترقی کے راستے تلاش کرنے میں جاگتا رہتا ہے۔ وہ دن اور رات میں کم از کم تیس گھنٹے کام کرتا ہے۔موصوف کے رشتے ارتضیٰ صاحب سے کھٹّے اور میٹھے رہے ہیں۔نظریاتی اختلاف کے باوجودابن کنول لکھتے ہیں:

’’ارتضیٰ کریم سے ہمارے تعلقات اچھے رہے ہوں یا بُرے ،تقریباً تین کم چالیس سال کے ہو گئے ہیں۔ اس طویل عرصے میں رشتے خوش گوار بھی رہے اور تلخ بھی، لیکن بد کلامی کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو کچھ بھی کہا ہو، لیکن سامنے کبھی کسی کو یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ رشتوں میں کھٹاس ہے۔ در اصل ارتضیٰ کریم کا اور میرا پیشہ ایک ہوتے ہوئے بھی راستے الگ ہیں۔ مزاج بھی الگ ہیں۔ میں یونی ورسٹی کی ملازمت سے مطمئن ہوں، کہیں چھوٹے بڑے عہدے پر جانا نہیں ، یہیں سے ان شاء اللہ گھر واپسی ہوگی۔ اس کی طبیعت میں بے چنبی ہے، دل میں ہزاروں خواہشیں ،ہر خواہش پہ دم نکلتا ہے۔ارتضیٰ نے یونی ورسٹی کی ملازمت کو کافی نہیں سمجھا ، بل کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اور بھی بہت کچھ کیا۔ ‘‘(ایضاً، ص،198)

                ’’گیسو دراز:شمس تبریزی‘‘خاکے میں ابن کنول نے شمس تبریزی کے بال،ان کی چال اور ان کی ڈھال پر خامہ فرسائی کی ہے۔موصوف لکھتے ہیں کہ جب میں علی گڑھ میں طالب علم تھا تب سے تبریز نامی اشخاص ان کی زندگی کا لازمی حصہ بن گئے ۔دہلی میں آنے کے بعد بھی شمس تبریزی نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔در اصل دہلی میں جس شمس تبریزی سے ان کی ملاقات ہوئی وہ قومی آواز میںنائب مدیر اوراچھے شاعر بھی تھے۔موصوف انھیں شامِ کے وقت اپنے افسانے سنانے کے فراق میںرہتے تھے لیکن شمس تبریزی دوپہر کے دو بجے گھر سے دفتر نکل جاتے اور دیر رات واپس آتے۔انھوں نے دہلی یونی ورسٹی میں ارتضیٰ کریم کے ساتھ شمس تبریزی کو بھی داخلہ لینے پر آمادہ کیا۔یہاں تک کہ شمس تبریزی کا ایم فل کا فارم اورفیس ابن کنول نے جمع کیے۔شمس تبریزی کا تعلق اٹاوہ سے تھا ۔بلا کے ذہین تھے۔ہمیشہ قلندرانہ زندگی گزاری۔قناعت پسندی ان کا شیوہ تھا ۔اپنی شاعری کا کوئی ضخیم کلیات تیار نہیں کیا۔البتہ انتخاب ضرور تیار کیا تھا۔

                ’’نصف صوفی ـ:خواجہ محمد اکرام الدین ‘‘ خاکے میں ابن کنول نے خواجہ احمد فاروقی کو دہلی کا تیئسواں خواجہ اور خواجہ محمد اکرام الدین کو چوبیسواں خواجہ قرار دیا ہے۔حالاں کہ دہلی کو’’ بائیس خواجاؤں کی دہلی ‘‘کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ابن کنول لکھتے ہیں کہ خواجہ محمداکرام الدین نے مدرسہ شمس الہدیٰ میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ذاتی طور پر میٹرک کا امتحان اپنے والد کی اجازت کے بغیر پاس کیا۔ خواجہ اکرام الدین، دہلی یونی ورسٹی میں پانچ سال تک رہے۔ دہلی یونی ورسٹی میں ان کا تقررریسرچ ایسو سی ایٹ کے طورپر پروفیسر عبدالحق کے ہاتھوں عمل میں آیا۔اس کے بعد پروفیسر وہاب اشرفی نے ان کا تقرر بہ حیثیت استاد رانچی میں کیا۔لیکن ان کے جے این یو کے استاد پروفیسر نصیر احمد خاں نے انھیںرانچی سے واپس بلا کر جے این یو میں مستقل طور پر اسسٹنٹ پروفیسر بنا دیا۔ابن کنول نے ان کے غیر ملکی اسفار کے کلو میٹر کی تعدادکے بارے میں لکھا ہے کہ یہ موجودہ دور کے ابنِ بطوطہ سے کم نہیں ہیں،جتنے اسفار انھوں نے کیے ہیں اتنے تو ابنِ بطوطہ نے بھی نہیں کیے ہوں گے۔جب یہ قومی کونسل برائے فروغِ اُردو کے سربراہ تھے،تب انھوں نے اُردو زبان و ادب کو نئی ٹیکنولوجی سے روشناس کرایا۔قومی کونسل سے نایاب و نادر کتابیں شائع کرائیں۔اُردو کے فروغ کے لیے انھوں نے کئی اہم ورک شاپ اور سمینار کا انعقاد بھی کیا۔موجودہ دور میںWORLD URDU ASSOCIATION کے ذریعے اُردو کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں ۔ابن کنول نے خواجہ اکرام الدین کی اس تیز رفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

’’1996میں پی ایچ ڈی کیا اور2013میں پروفیسر ہو گئے، جب کہ بہت سے 1990میں پی ایچ ڈی کرنے والے اسسٹنٹ پروفیسر ہونے کی خواہش میں گھوم رہے ہیں۔ احباب کو شبہ ہونے لگا کہ ضرور کوئی غیبی طاقت ہے، جو ان کی مستقل مدد کررہی ہے ،ورنہ تو دیکھنے میں ایسی کوئی پُر وقار شخصیت نہیںہے کہ آدمی انھیں دیکھ کر احتراماً کھڑاہو جائے ۔۔۔۔۔۔ہو نہ ہو کوئی غیبی قوت ہی ہے جو جاپان سے امریکہ تک اور ہالینڈ سے مصر اور ماریشس تک سب کو خواجہ خواجہ کہنے پر مجبور کرتی ہے۔یعنی ایران اور توران سب جگہ خواجہ ہی خواجہ ہے ۔کچھ تو ان کی علمیت اور ادبیت کے قائل ہیں اور کچھ ان کی خواجگی کے۔‘‘(ایضاً، ص220)

                ’’مشکل کشا:محمد کاظم‘‘ خاکے میں ابن کنول لکھتے ہیں ڈاکٹر کاظم کا ایک پیر دہلی میں اور دوسرا کلکتہ میں رہتا ہے۔گھومنا انھیں بہت پسند ہے۔ یہ مصر،ماریشس،بنگلہ دیش،ترکی،ازبیکستان وغیرہ کے اسفار کر چکے ہیں۔ڈرامہ نگاری ان کے جسم اور روح میں سرایت کر چکی ہے۔ڈراموںاور نکّڑ ناٹکوں میں اداکاری ڈاکٹر محمد کاظم کا پسندیدہ عمل ہے۔نکّڑ ناٹکو ںکے حوالوں سے ان کی کئی کتابیں مثلاً، بنگال میں اُردو نکّڑ ناٹک،ہندوستانی نکّڑ ناٹک اور اس کی سماجی معنویت،مشرقی ہند میں اُردو نکّڑ ناٹک وغیرہ منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔نکّڑ ناٹکوںکے علاوہ کاظم صاحب نے داستان گوئی پر بھی کام کیا ہے۔ان کی خوبیوں پر سنجیدگی سے گفتگو کرتے ہوئے ابن کنول نے یہ بھی لکھا ہے کہ واقعی یہ ہر فن مولا استاد ہے۔ہر جگہ استادی دکھاتا ہے۔ ہر فن میں استاد ہے بنگالی ہے نا، بنگالی تو ہر فن مولا ہوتے ہیں۔ڈرامہ بہت کرتے ہیں ۔بنگالیوں کے لیے زندگی ہی ڈرامہ ہے۔ہر بنگالی خود کو ستیہ جیت رے سمجھتا ہے۔ابن کنول نے اس خاکے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ڈاکٹر محمد کاظم طلبہ کوایک ہدایت کار کی مانند سمجھاتے ہیں۔نئی تکنیک سے ہم آہنگی اور نئے مسائل کا حل ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ملازموں کی تنخواہ ،ان کے گریڈ پے،بیسک پے وغیرہ کا میزان یہی لگاتے ہیں۔یعنی یہ حساب کتاب اور آفس ورک میں بھی ماہر ہیں۔شعبۂ اُردو کے زیادہ تر آفیشئل کاغذی کام ڈاکٹر محمد کاظم کے ہی سپرد ہیں۔صدر شعبہ تو صرف دستاویزوں پر دستخط کرتا ہے۔ڈاکٹرمحمد کاظم نے دہلی یونی ورسٹی میں 2002میںجوائن کیا۔تب سے آج تک انھوں نے جتنی شہرت اور عزت کمائی اتنی تو کئی پروفیسر رٹائرمنٹ تک نہیں کما پاتے ہیں۔ان کے بلند و بالا اخلاق کی وجہ سے اعلا حکام سے لے کر چپراسی تک ان کا احترام کرتے ہیں۔

                ’’عظیم صدیقی‘‘ خاکے میں ابن کنول نے ان کی اُردو نوازی کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔عظیم صدیقی بنیادی طور پر مصور تھے۔لیکن انھیں اُردو ادب سے والہانہ شغف تھا۔ان کی شریک حیات ڈاکٹر نگار عظیم ایک کامیاب افسانہ نگار ہیں۔اس کے باوجود دونوں مصور بھی ہیں اور ادیب بھی۔عظیم صدیقی نے اُردو کو تکنیک سے جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔وہ کمپیوٹر کے ماہر تھے۔اپنی تمام کتابوں میں انھوں نے تکنیک کا خوب استعمال کیا۔اُردو سکھانے کے لیے انھوں نے کتاب بھی تیار کی تھی۔اُردو والوں کو کمپیوٹر سے روشناس کرانے کے لیے ’’ہدایت مائکرو سافت ورڈ‘‘کتاب بھی لکھی۔عظیم صدیقی کا تعلق بجنور سے تھا لیکن ابن کنول نے انھیں میرٹھ والے دوستوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

                ’’معصوم ادیب:ڈاکٹر نعیم انیس‘‘ خاکے میں ابن کنول نے ان کی ادب نواز معصومیت پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ابن کنول کی ڈاکٹر نعیم انیس سے پہلی ملاقات این سی ای آر ٹی ،نئی دہلی کے ورک شاپ میں ہوئی۔اس ورک شاپ میں مرد حضرات میں صرف یہ ہی سب سے کم عمر تھے۔ان کی کم عمری کا فائدہ بزرگ ادیبوں نے خوب اٹھایا۔ڈاکٹر نعیم انیس نے بھی اپنے بزرگ ادیبوں کے ہر حکم پر لبیک کہا۔نعیم انیس کا تعلق یوپی ،مظفر نگر ،کے قصبہ جھنجھانہ سے ہے۔ان کے بزرگ تلاشِ معاش کی خاطر جھنجھانہ سے کلکتہ چلے گئے۔یہیں پر نعیم انیس نے آنکھیں کھولیں اور تعلیم و تربیت حاصل کر کے کلکتہ میںملازمت حاصل کی۔ابن کنول نے اس خاکے میں بنگالی زبان اور اُردو کے رشتوں پر خامہ فرسائی کی ہے۔کہیں کہیں بنگالی مارکیٹ ،اور بنگالی بولنے والے افراد بالخصوص ڈاکٹر کاظم کا بر سبیل تذکرہ آ گیا ہے۔ڈاکٹر نعیم انیس کی ادبی کارکردگیوںاور سرگرمیوں کے بارے میں ابن کنول لکھتے ہیں:

’’ان کی ’’پرواز‘‘بہت بلند ہے اور ’’فکر و تحریر‘‘ بھی۔1994میں ’’نیاز احمد کا مطالعہ‘‘کیا۔1999میں ’’اظہار‘‘کر ڈالا،پھر’’یادوں کے جگنوں‘‘لے کر’’وہ لمحے یاد‘‘کرتے رہے۔کبھی ’’پریم چند‘‘کو پڑھا،کبھی ’’اعزاز افضل کا کلام‘‘دہرا دیا، ’’اُردو میںمعروف خواتین افسانہ نگاروں کی خدمات‘‘بتا کر انھیں خوش کیا۔ ’’علامہ اقبال‘‘اور’’خواجہ جاوید اختر‘‘کو ’’میزان افکار‘‘پر پرکھا۔’’آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اُردو ادب ’’تلاش کیا۔’’راجندر سنگھ بیدی‘‘اور ’’انتظار حسین‘‘کے بعد ’’اکیسویں صدی میں اُردو ناول‘‘اور’’اکیسویں صدی میں اُردو افسانہ‘‘پر گفتگو’’بیدل مرشد آبادی کی غزلیات‘‘کے ساتھ ساتھ’’بیگم رقیہ‘‘کی شخصیت پر بھی اظہارِ خیال کیا۔اسی لیے توگذشتہ بیس سال سے اس نوجوان کومستقل انعامات سے نوازا جا رہا ہے۔‘‘(ایضاً،ص 249)

                پروفیسر ابن کنول نے ’’کچھ شگفتگی اور کچھ سنجیدگی ‘‘میں آخری خاکہ اپنے گھریلو ملازم ’’محمد شریف:خادم یا مالک‘‘عنوان سے تحریر کیا ہے۔اس خاکے میں موصوف نے محمد شریف کی خامیوں اور خوبیوں کا تذکرہ دل چسپ انداز میں کیا ہے۔ان کے مطابق محمد شریف صرف ملازم ہی نہیں ہے بل کہ ان کے گھر کا سب سے اہم ترین فرد ہے۔ گھر میں رکھی ہوئی چیزوں کی جتنی جان کاری محمد شریف کے پاس ہے اتنی اہلِ خانہ کے پاس بھی نہیں۔محمد شریف کی زبان میں لکنت ضرور ہے لیکن اس کا دل شیشے کی طرح صاف ہے۔بچوں ،بزرگوں اور عورتوں میں اس کی بہت قدر ہے۔گھر والے بھی اس پر آنکھ بند کر کے بھروسا کرتے ہیں۔وہ،سب لوگوں کے کام سلیقگی کے ساتھ کرتا ہے۔اہلِ خانہ نے اس کی شادی ایک ملازمہ سے کرا دی تھی لیکن وہ محمد شریف کے پاس زیادہ دن نہیں رہ پائی۔البتہ محمد شریف کو اس بات کا کوئی ملال نہیںکہ اس کی بیوی اس کا ساتھ چھوڑ کر چلی گئی۔ ابن کنول کے اہلِ خانہ کے ساتھ زندگی بسر کرنااسے پسند ہے ۔گھر میں منعقد ہونے والی تقریبات میںسج سنور کر محمد شریف پیش پیش رہتا ہے۔ابن کنول نے اس خاکے کے اختتام پر لکھا ہے کہ ’’شریف کو اتنی محبت اور عزت ملی ہے کہ شاید اب اُسے زندگی بھر محرومی کا احساس نہیں ہوگا۔‘‘

                بہر نوع!’’کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی‘‘صرف خاکوں کا ہی مجموعہ نہیں بل کہ یہ معلومات کا گنجینۂ ہے۔اس کتاب میں موصوف نے عام فہم زبان کاا ستعمال کرتے ہوئے اپنی بات کو پیش کیا ہے۔جگہ جگہ محاورات اور ضرب المثل کا بر جستہ استعمال کیا ہے۔خاکہ نگار نے اپنی بات کو اس انداز میںپیش کیا گویا قاری بھی اس محفل کا حصہ ہو۔جملے چست،اور فقرے درست ہیں۔بات میں سے بات نکالنے کا انداز معنی خیز ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں سے خاکوں میں بو قلمونیاں پیش کی گئی ہیں۔قاری اگر اس کتاب کا مطالعہ ایک بار شروع کر دے تو اختتام پر ہی دم لے۔بزرگ ادیبوںپر لکھے خاکوں میں زبان و بیان کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔واقعات و منظر نگاری میں جزئیات سے کام لیا گیا ہے۔کشمیر اور غیر ملکی اسفار کے بیان میں سحر انگیزی نمایاں ہے۔کتاب کے عنوان کی مانند ان خاکوں میں شگفتگی اور سنجیدگی کے پہلوجا بجا موجودہیں۔صحت مندتنقید کے پہلو ؤں کومزاح کی چاشنی میں لپیٹ کر پیش کیا گیا ہے۔دورِ حاضر میں جو خاکے لکھے گئے ہیں ان میں پروفیسر ابن کنول کی یہ کتاب اہمیت کی حامل ہے۔اس کتاب کو بے شک لاک ڈاؤن میں لکھا گیا ،لیکن لاک ڈاؤن کی پابندیاں بھی ان کے قلم کو ڈاؤن نہ کر سکیں۔مجھے کامل یقین ہے کہ خاکوں کی یہ کتاب آنے والے وقت میں دستاویز کی حیثیت سے جانی جائے گی۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.