پروفیسر ابن کنول : تعلیمی خیالات اور ادبی خدمات”
پروفیسر ابن کنول : تعلیمی خیالات اور ادبی خدمات”
سونو رجک ریسرچ اسکالر مانو کالج آف ٹیچر ایجوکیشن دربھنگہ(بہار) Mobile no:- 9708779952,7979072824
Email ID:- Sonu.06541@gmail.com
ہندوستانی اور بین الاقوامی فکر و دانش کے سرچشمے جن علوم و فنون ، مذاہب ، تہذیبوں، زبانوں، علاقائی ثقافتوں، تاریخی اور سماجیاتی جدلیات سے پھوٹتے ہیں ان سب کے معتبر اسکالر اور شناور شخصیات میں ایک نام پروفیسر ابن کنول کا ہے۔ پروفیسر ابن کنول کی شخصیت عالمی اردو ادب پر ایک جگہ گاتے اور ٹمٹماتے ہوئے آفتاب و سیارے کی مانند ہے۔ اکیسویں صدی میں موصوف کی شخصیت صرف ایک فرد واحد کے طور پر ہی تسلیم نہیں کی جاتی بلکہ ان کی شہرت و مقبولیت عالمی سطح پر نمایاں ہے۔ دنیا کے جن حصوں یا جن تعلیمی اداروں میں اردو بولی جاتی ہے اورکبھی جاتی تھی، وہاں وہاں پروفیسر ابن کنول کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے عالمانہ خیالات، نظریات اور اپنی غیر معمولی علمی اور ادبی خدمات کی بنا پر اردو ادب میں ایک انقلاب بر پا کیا۔ پروفیسر ابن کنول کا شمار اردو کے ممتاز ادبیوں میں ہوتا ہے، آپ بیک وقت افسانہ نگار ، فکشن نگار، ناول نگار ، انشائیہ نگار، خاکہ نگار ، ڈرامہ نگار، سفر نامہ نگار ، ناقد محقق ، مدقق اور شاعر تھے۔
ابن کنول (پروفیسر ناصر محمود کمال) کی پیدائش آبائی وطن ڈبائی ضلع بلند شہر میں 15 / اکتوبر 1957 کو ہوئی۔ان کا تعلق قصبہ بہجوئی کے ایک زمیندارخانوادے سے تھا۔ آپ کا اصل نام ناصرمحمود کمال تھا، آپ کے والد معروف قومی شاعر قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی تھے۔ والد محترم مشہور قومی شاعر قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی تھے۔ ان کے اجداد شاہ جہاں کے عہد میں ہندوستان آئے اور قاضی کے عہدے سے نوازے گئے حکومت کی طرف سے جاگیریں دی گئیں۔ بعد میں آپ کے بزرگ قصبہ ڈبائی میں آکر رہائش پزیر ہو گئے۔ آپ کا خاندان علمی و ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ دادا قاضی شریعت اﷲ (متوفی 1930) ایک قابل وکیل تھے۔ پردادا قاضی ادہم علی فارسی اور سنسکرت کے عالم تھے قصبہ ڈبائی علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اس قصبے نے اردو ادب کو کئی اہم شخصیات دی ہیں۔ وفاؔ ڈبائیوی، دعاؔ ڈبائیوی، انتظار حسین، منیب الرحمان اور نداؔ فاضلی جیسے اکابرین علم و فن اسی قصبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آزادی سے پہلے یہاں علمی وا دبی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں جن میں ہر طبقہ کو لوگ شوق سے شامل ہوا کرتے تھے۔ مشاعروں سے سبھی مذاہب کے لوگ لطف لیا کرتے تھے۔ بعد میں ان میں سے اکثر پاکستان چلے گئے یا علی گڑھ اور دوسرے شہروں میں منتقل ہو گئے۔ ا ان کے والد کنول ڈبائیوی کی شاعری وطن کی محبت کے جذبے سے معمور ہے۔ وہ ایک سچے محب وطن تھے۔ ان کی شاعری اس کا نمونہ ہے۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے “بساط زیست” اور ’’سوزوطن‘‘ اور ان کی زندگی ہی میں شائع ہوچکے تھے۔ حال ہیں میں ان کی شاعری کو ایک کلیات کی شکل میں پروفیسر ابن کنول نے ’مضراب‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ وہ ایک اچھے محقق بھی تھے انہوں نے لوک ناٹک پر بھی کام کیا تھا۔ لوک ناٹک پر اردو زبان میں اب تک کوئی کتاب نہیں ہے۔ انہوں نے بڑی محنت سے لوک ناٹک کی تاریخ اور اس فن کے بارے میں تفصیلات فراہم کی ہیں۔ یہ کتاب ابھی اشاعت کے مرحلہ میں ہے۔ کنول ڈبائیوی کی شاعری کو پروفیسر آل احمد سرور، پروفیسر مسعود حسین خاں، خواجہ احمد فاروقی ،میکش اکبرآبادی اور پروفیسر عبد الحق جیسے مشہور ناقدین فن نے سراہا ہے۔
تعلیم وتربیت
ابن کنول نے اپنی ابتدائی تعلیم ضلع بدایوں کے قصبہ گنور میں ایک اسلامیہ اردو اسکول میں حاصل کی۔ آپ 1962 میں پہلی جماعت میں داخل ہوئے آپ کے پہلے استاد حاجی صفدر علی مرحوم تھے۔ پانچویں جماعت کے بعد آپ نے آگے کی تعلیم کے لیے علی گڑھ کا رخ کیا اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے منٹو سرکل اسکول میں داخل ہوئے۔ 1972 میں ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد پری یونی ورسٹی سائنس میں داخلہ لیا۔ 1978 میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ایم اے کیا۔ یہاں کی علمی فضا سے بھر پور استفادہ کیا۔ پروفیسر ابن کنول کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں علی گڑھ میں پروفیسر خورشید الاسلام ،پروفیسر قاضی عبد الستار، ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمی، پروفیسر شہریار، پروفیسر نورالحسن نقوی، پروفیسر عتیق احمد صدیقی، پروفیسر منظر عباس نقوی، پروفیسر نعیم احمد اورپروفیسر اصغر عباس جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ ایم اے مکمل کرنے کے بعدآپ نے دہلی یونی ورسٹی کا رخ کیا۔ پی ایچ ڈی میں آپ نے ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی نگرانی میں ’بوستان خیال کا تہذیبی و لسانی مطالعہ ‘ کے عنوان سے تحقیقی کام کیا۔ آپ کی یہ کاوش کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی۔ دہلی میں آپ کو بانئ شعبۂ اردو خواجہ احمد فاروقی اور مشہور ترقی پسند نقاد قمر رئیس سے بھی شرف تلمذ حاصل کرنے کا موقع ملا۔ 1985 میں شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی ہی میں درس تدریس سے وابستہ ہوئے۔ 1998 میں ریڈر ، 2006 میں پروفیسر اور 2018 میں سینئر پروفیسر کے لیے ترقی ہوئی۔ آپ نے دو مرتبہ صدر شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی کے فرائض انجام دیئے ، 31 اکتوبر 2022 کو ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔عہد حاضر میں ابن کنول کو بلند و پایہ ادبی ہستیوں کی صحبت حاصل رہی جن میں پروفیسر قاضی عبدالستار، ڈاکٹر منظر عباس، پروفیسر شہر یار، پروفیسر نور الحسن نقوی، پروفیسر نعیم احمد اور ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمی قابل ذکر ہیں۔
اُردو زبان و ادب کے میدان میں پروفیسر ابن کنول کے کارنامے کثیر الجہات ہیں۔ اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ وہ نہ صرف بلند پایہ مفکر محقق اور ممتاز دانشور تھے بلکہ بلند پایہ کے نقاد بھی تھے۔ وہ نظریہ ساز ادیب و فنکار بھی تھے اور عہد ساز شخصیت کے مالک بھی۔ وہ ادب کے حوالے سے تبدیل ہوتے رجحانات اور رویوں سے نہ صرف یہ کہ پوری طرح باخبر رہتے تھے بلکہ ان رجحانات کے ساتھ ساتھ خود کو بھی بدلنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ وہ جمود وسکون کے قائل نہیں تھے۔شہرت و مقبولیت کی یہ بھی بڑی وجہ تھی کہ وہ ادبی منظر نامے پر ہمیشہ تازہ دم نظر آتے اور نئی پرانی دونوں نسلوں کو ہر جدید اور تازہ نظریہ پر کھل کر گفتگو کے مواقع فراہم کرتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے تصنیف و تالیف اور فکر وفلسفہ کے علاوہ ہندوستان اور بیرون ہندوستان میں اردو کے اتنے عظیم الشان اور یادگار سمینار منعقد کر وائے ہیں جو نہ صرف تاریخی نوعیت کے حامل رہے بلکہ ان سے ادب کی نئی نئی راہوں پر چلنے اور منزل تک رسائی حاصل کرنے میں آ سانی ہوتی ہے۔ ان سے ایک پوری نسل کے ذہن و دماغ کی آبیاری ہوئی ہے اور ادبی فضا کوتابنا کی وروشنی حاصل ہوئی ہے۔
پروفیسر ابن کنول ایک ہمہ گیر اور کثیر الجہات شخصیت کا نام ہے اردو تنقید کے میدان میں بھی ان کی جہتیں مختلف ہیں جن میں اردو شاعری ، اردو نثر ، اور اسلوبیات کے ساتھ ساتھ ان کا پسندیدہ میدان ”اردو افسانہ بھی رہا ہے۔ اردو تنقید کی تاریخ میں زیادہ تر نثر کی تنقید سے ہی سروکار رکھا گیا ہے یعنی ادب کے مطالعے میں فکشن کو بنیادی حیثیت حاصل رہی اور شاعری کو ثانوی مقام بھی مشکل سے دیا گیا۔ پروفیسر ابن کنول نے ہماری علمی ، ادبی اور تہذیبی زندگی کو اپنی تحریروں اور تقاریر سے نہایت دلچسپ انداز میں متاثر کیا ہے۔ اردو نثر کے ارتقائی سفر پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ کلاسیکی اور جدید نثر کے سلسلے میں ان کی خدمات بہت اہم ہیں۔ پروفیسر ابن کنول موجودہ ادبی منظر نامے پر کلاسیکی نثر کے بڑے پارکھ تھے ۔ پروفیسر ابن کنول پریم چند اسکول کے جدید قابل قدر اور عظیم افسانہ نگار ( قلم کار ) تھے اور دبستان قمر رئیس کے اہم ناقد اور محقق تھے۔ شعبہء اردو دہلی یونیورسٹی کے وقار کی بازیافت ، فلاح و ترویج اور تعمیر وترقی میں آپ کا اہم کردار رہا ہے۔ ابن کنول صاحب ہمیشہ با صلاحیت اور با ہمت طلبا کی حتی الامکان معاونت کرتے اور اردو تحقیق و تنقید کو معیار و وقار بخشنے کی کوشش کرتے ۔ ابن کنول کا قلم آخری ایام تک رواں دواں تھا۔ ان کے افسانے اور علمی و ادبی مضامین ملک و بیرون ملک کے رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں ۔ قومی و بین الاقوامی سمیناروں میں شرکت کرتے رہتے ، اس وجہ سے اس فہرست میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ ابن کنول کے اس مختصر سے تعلیمی وسوانحی خاکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ ایک عظیم قلم کار اور لکھاری تھے، باضابطہ پور پر ان کی تحریریں مختصر رسالوں اور جرائد کی زینت اور قارئین کے دلچپسی کا سامان ہوتی تھی۔ ابن کنول اپنے قلم کا ذائقہ بدلنے کے لئے مختلف اصناف میں سے جسے بھی چاہتے تھے منتخب کر لیتے تھے اور اپنے اندر کی آواز کو اپنے قاری تک پہنچانے کی حتی الامکان کوشش کرتے تھے۔ ان کی تحریریں قاری کو عزم وحوصلہ دیتی ہیں۔ حالات سے نبرد آزما ہونے کا سلیقہ دیتی ہیں ۔ ابن کنول کے یہاں آج کے قلم کاروں کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ میں نے ان کے افسانوں کو بار بار پڑھا۔ ہر مرتبہ مجھے ان کے اندر کچھ نیا ملا ہے۔ غالبا یہی وہ چیز ہے جس کو پر و فیسر عتیق اللہ نے بین السطور سے تعبیر کیا ہے۔ ابن کنول کے افسانے پس متن بھی کچھ بیان کرتے ہیں۔ اس پس متن کو پڑھنے کے لئے افسانوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔زیادہ تر نثر کی تنقید سے ہی سروکار رکھا گیا ہے یعنی ادب کے مطالعے میں فکشن کو بنیادی حیثیت حاصل رہی اور شاعری کو ثانوی مقام بھی مشکل سے دیا گیا۔
ابن کنول نے فکشن کو طلسماتی انداز اور ماحول سے الگ کر کے حقیقی دنیا کے مرقع کو جس حُسن اسلوبی اور فطری انداز میں پیش کر کے آئندہ نسلوں کے لیے افسانوی فن کا راستہ ہموار کیا ہے وہ نہایت دلچسپ ہے۔ ابن کنول نے زندگی کے معاملات سے اپنے آپ کو پابند کر لیا تھا۔ وہ ایسے ماحول کی تصویر کشی کرتے رہے جو ان کے مشاہدے اور تجربے کا حصہ ہیں۔ انھوں نے خیالی زندگی سے یکسر منہ نہیں پھیرا بلکہ تخلیق کے منصب کو اس کے حقیقی خدو خال میں واضح کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔ ان کا افسانوی فن زمانے کے نشیب و فراز کی افسانوی زندگی کی تاریخ کو رقم کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فنکار تاریخ بیان نہیں کرتا مگر مورخ سے زیادہ کھلے ذہن اور کشادہ قلب سے معاشرتی ،سماجی و تہذیبی ، سیاسی اور معاشی حالات کو دیکھتا اور دکھاتا ہے اور اپنے فن کے ذریعہ ذہنی تحدیدات اور گھٹن زدہ فضا و ماحول کو کشادہ کرنے لگتا ہے، جس سے اس کے فن پارہ میں تخلیقی تاثرات سامنے ابھر کر آتے ہیں اور انہیں وہ افسانوی رنگ و روغن کے باوجود ایک ایسی حقیقت نمایاں کرتا ہے جس میں افسانوی رنگ بھی ہوتا ہے اور حقیقت وصداقت کی تصویریں بھی۔ جہاں یہ تصویریں زمانے کے حالات و کوائف کو ظاہر کرتی ہیں، اس طرح سے فنکار کا فن عیاں اور روشن ہوتا ہے۔ ابن کنول کے تخلیقی فن میں بظاہر واقعات اور حادثات کا ایک سلسلہ زندگی اور ماحول سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔
پروفیسر ابن کنول کی اب تک تقریباً 27 سے زائد تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں ۔ انہیں میں ایک تصنیف خاکوں کا مجموعہ ( کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی) کے نام سے منظر عام پر آچکی ہے جو خاصا مقبول ہے مختلف شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔ ( مجموعہ میں کل 25 خاکے ہیں۔ ) ان میں طنز ومزاح کا لطف ہے تو کچھ بہت سنجیدہ ہیں۔ لیکن کوئی خاکہ ایسا نہیں ہے جو قاری کو متاثر نہ کرے۔ ان خاکوں کی متعدد خصوصیات ہیں سب سے بڑی خصوصیت تو زبان کی سادگی و سلاست ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بقول ” سادہ زبان لکھنا آسان نہیں۔ سادہ زبان لکھنے کے یہ معنی نہیں کہ آسان لفظ جمع کر دیے جائیں۔ ایسی تحریر سپاٹ اور بے مزا ہوگی۔ سلاست کے ساتھ لطف بیان اور اثر بھی ہونا چاہیے۔ یہ صرف با کمال ادیب کا کام ہے ۔ ابن کنول کے خاکوں میں آسان الفاظ تو ہیں مگر تحریر سپاٹ نہیں ہے اور لطف بیان سے خالی بھی نہیں ہے۔ ( گویا بابائے اردو کی زبان میں ابن کنول ایک باکمال ادیب کا نام ہے) تحریر میں غضب کی روانی ہے۔ آمد ہی آمد ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر خا کہ بیک نشست اور قلم برداشتہ لکھا گیا ہے۔ کہیں بھی بے ربطی یا بے لطفی نہیں ہے۔ تحریر میں جو بہاو ہے وہ قاری کو بہا لے جاتا ہے اور وہ ایک خا کہ ختم کرتا ہے تو دوسرا شروع کر دیتا ہے۔
تنویر احمد علوی کے خاکے کی چند سطور ملاحظہ ہوں ، میرے دعوے کی تصدیق ہو جائے گی ۔ لکھتے ہیں :
’’علوی صاحب دہلی آکر دہلی ہی کے ہو رہے۔ جن گلیوں میں ذوق اور غالب بستے تھے وہیں قیام کیا۔ دہلی کی گلیوں سے ذوق کی طرح محبت ہوگئی ۔ پچاس سال سے زیادہ وقت عمر کا دہلی میں گزارا لیکن شاہ جہان آباد کی فصیل سے باہر نہ گھر کرائے پر لیا اور نہ بنایا۔ جبکہ کتنے ہی دہلی والے دہلی اور اس کی تہذیب سے محبت کا دعویٰ تو کرتے رہے لیکن دہلی سے بیوفائی کر کے جمنا پار جاہئے“۔
اس اقتباس سے دہلی سے علوی صاحب کی محبت تو ظاہر ہی ہوتی ہے، وہ یہ خبر بھی دے دیتے ہیں کہ دہلی سے محبت کا دم بھرنے والے بہت سے لوگ دہلی کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔
اسی طرح قمر رئیس کے خاکے کی یہ سطور ملا حظہ ہوں:
نوجوانوں میں قمر رئیس بہت مقبول تھے۔ دراصل ان کی گفتگو اور افعال نوجوانوں جیسے تھے۔ وہ اپنی عمر کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے تھے۔ خواتین کی طرح اپنی عمر چھپاتے بھی تھے۔ جب پچھتر سال کے ہوئے تو کچھ شاگردوں نے ان کے یوم پیدائش پر جشن منانے کی خواہش ظاہر کی تو انھوں نے کہا کہ کارڈ میں عمر کا ذکر نہیں کرنا ورنہ کوئی میری طرف دیکھے گا بھی نہیں“۔
اسی تسلسل میں یہ جملے بھی خاصے دلچسپ ہیں:
قمر رئیس صاحب نسلاً پٹھان ضرور تھے۔ نام بھی گھر والوں نے مصاحب علی خان رکھا تھا ۔ لیکن ان میں سوائے رنگ و روپ کے پٹھانوں والے خصائص نہیں تھے۔ ان میں سیدوں جیسی نفاست و نزاکت تھی۔ اتنے نرم دل تھے کہ جس نے ہنس کے بات کی بس اسی کے ہو لیے۔ خصوصاً اگر سامنے کوئی صنف نازک ہے تو تمام طلاقت لسانی اور شیریں زبانی مع تبسم صرف کر دیتے تھے۔ “سنا ہے قمر صاحب نو جوانی میں ایسے نہیں تھے، یعنی جب شاہجہاں پور میں تھے نماز بھی پڑھتے تھے اور کبھی کبھی اذان بھی دیتے تھے لیکن لکھنو آئے تو پڑھے لکھوں کی صحبت میں بگڑ گئے۔ ان خاکوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ خاکہ نگار نے خود کو بڑا دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ ابن کنول جیسے ہیں ویسے ہی انھوں نے خود کو بھی پیش کر دیا ہے۔ جس طرح انھوں نے دوسروں کے محاسن و عیوب کو بیان کیا ہے اپنے عیوب بھی بیان کر دیے ہیں۔ اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور چھپ چھپاتے نہیں بلکہ علی الاعلان کیا ہے۔ جس کی وجہ سے تقریباً تمام خاکوں میں ان کی . میں سمجھتا ہوں کہ کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی کے حوالے سے اردو دنیا کو ایک نیا اور اچھا نا کہ نگارل گیا ہے۔ میرا خیال ہے ابن کنول کو عہد حاضر کے صف اول کے خاکہ نگاروں میں شمار کرنا چاہئے۔
پروفیسرابن کنول کاشماراردوکے ممتازادیبوں میں ہوتاہے،آپ بیک وقت افسانہ نگار،خاکہ نگار،انشائیہ نگار،سفرنامہ نگار،ڈرامہ نگار،ناقد،محقق اورشاعرہیں۔
ادبی نشو ونما اور ادبی خدمات
ابن کنول ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے والد کنولؔ ڈبائیوی ایک قومی شاعر تھے، شعروادب کی خدمت آپ کا مشغلہ تھا۔ ظاہر ہے کہ ان کی تربیت میں رہ کر آپ کے ادبی ذوق کو جلا ملی ہوگی۔ ابن کنو ل کے والد کہا کرتے تھے کہ ہماری زمینداری ہماری اولاد ہے۔ انہوں نے اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ الحمدﷲ ان کے سبھی لڑکوں نے اعلٰی تعلیم حاصل کی۔ اسکول کے زمانے میں ہی آپ چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنے لگے تھے۔ آپ کے اسکول کے ساتھی اسلم حنیف شاعری کیا کرتے تھے اورآپ کہانی لکھے آ تھے۔ کبھی کبھی ان سے متأثر ہوکرابن کنول بھی شاعری میں طبع آزمائی کر لیا کرتے تھے۔ ابن کنول بتاتے ہیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو اپنی تخلیقات پڑھ کر سناتے اور خوش ہوتے۔ یہ ابتدائی زمانے کی شاعری اور افسانے ظاہر ہے کہ اس معیار کی نہیں ہوتی تھیں کہ انہیں افسانہ یا شاعری میں شمار کیا جاتا۔ لیکن کہتے ہیں کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ یہ ابتدائی نگارشات ابن کنول کے مستقبل کے ادبی سفر کی تمہید تھے۔ ابن کنول کے ادبی ذوق کو جلا بخشنے میں علی گڑھ کی ادبی و علمی فضا کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ایم اے میں آپ’’انجمن اردو ئے معلی‘‘کے سکریٹری رہے۔ یہ وہی انجمن ہے جس کی بنیاد مولانا حسرت موہانی نے رکھی تھی۔ اسلم حنیف سے متأثر ہوکر ابن کنول نے اس زمانے میں انسان کے چاند پر قدم رکھنے پر پہلی نظم کہی تھی جو ماہنامہ نور رامپور میں شائع ہوئی۔ لیکن جلد ہی ابن کنول نے اندازہ لگا لیا کہ ان کا حقیقی میدان افسانہ ہے۔ اس وجہ سے آپ نے اپنی توجہ اسی طرف رکھی۔ ابتدا میں ناصر کمال کے نام سے افسانے لکھتے تھے۔ لیکن 1975 سے ابن کنول کے نام سے افسانے لکھنے لگے۔ ابن کنول اصل میں آپ کے والد کی طرف نسبت ہے۔ باقاعدہ افسانہ لکھنے کا آغاز 1972 سے ہوا۔ آپ کا پہلا مطبوعہ افسانہ ’اپنے ملے اجنبی کی طرح ‘ ہے جو 1974میں آفتاب سحر (سکندرآباد) نامی رسالے میں شائع ہوا۔ جب 1973میں آپ نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا تو قاضی عبد الستار کی سرپرستی مل گئی۔ قاضی عبد الستار کے مکان پر ماہانہ نشستیں ہوتی تھی جس میں نوجوان ادیب اپنی نگارشات پیش کیا کرتے تھے اور قاضی عبد الستار اور دیگر ان پر تبصرہ کرتے تھے۔ ان نوجوان ادیبوں اور شاعروں میں جو لوگ تھے ان میں سے چند اہم نام یہ ہیں :شارق ادیب، سید محمد اشرف، غضنفر، پیغام آفا قی، طارق چھتاری، غیاث الرحمان، صلاح الدین پرویز، آشفتہ چنگیزی، فرحت احساس، اسعد بدایونی، مہتاب حیدر نقوی وغیرہ۔ علی گڑھ میں تعلیم کے دوران میں آپ کے افسانے ملک کے معروف ادبی رسالوں میں شائع ہونے لگے تھے۔ جن میں شاعر، عصری ادب، آہنگ، صبح ادب اور نشانات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ابن کنول نے بتایا کہ ’بندراستے ‘ جب1976 میں عصری ادب میں شائع ہوا تو محمد حسن نے اس کی بڑی تعریف کی۔ طالب علمی کے زمانے میں اردو کے اس عظیم ناقد سے تحسین کے کلمات کسی سند سے کم نہیں تھے۔ دہلی یونی ورسٹی میں داخل ہونے کے بعد بھی افسانہ نگاری کا سلسلہ برقرار رہا۔ یہاں آکر پروفیسر قمر رئیس اور ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی تربیت میں آپ کے اندر تنقیدی اور تحقیقی صلاحیتیں پروان پائیں۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نےاردو افسانہ، تنقید اور تحقیق جیسے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کے افسانے اور علمی و ادبی مضامین ملک وبیرون ملک کے رسالوں میں شائع ہو تے رہے ہیں۔ قومی و بین الاقوامی سمیناروں میں شرکت کی ۔ان کی تصانیف میں تیسری دنیا کے لوگ (افسانے ) 19842.، بند راستے (افسانے ) 2000۔ ہندوستانی تہذیب بوستان خیال کے تناظر میں 19883.(’بوستال خیال ایک مطالعہ‘ کے نام سے 2005 میں دوبارہ شائع ہوئی)۔ ریاض دلربا(اردو کا پہلا ناول) (تحقیق) 19904.، تنقید و تحسین(تنقیدی مضامین کا مجموعہ) 2006 .، نظیر اکبرآبادی کی شاعری 2008۔ مضراب (کنول ڈبائیوی کا کلیات معہ مقدمہ)2010۔ اردو افسانہ (افسانوی تنقید) 2011و غیرہ قابل ہیں۔
اعزازات و انعامات
ابن کنول کو ان کی ادبی و علمی خدمات کے اعتراف میں کئی سارے اعزازات و انعامات سے نوازا گیا ہے جن میں درج ذیل قابل اور معروف ومشہور ہیں:
- سرسید ملینیم ایوارڈ، دہلی برائے اردو فکشن 2001 ڈاکٹر منموہن سنگھ نے پیش کیا۔
- ہریانہ اردو اکادمی کا کنور مہیندر سنگھ ایوارڈ برائے ادبی خدمات 2007۔ گورنر ہریانہ جناب اخلاق الرحمان قدوائی کے ہاتھوں ملا۔
- تیسری دنیا کے لوگ، ہندوستانی تہذیب بوستان خیال کے تناظر میں، داستان سے ناول تک، بند راستے، تنقید وتحسین اور اردو افسانہ پر اترپردیش اردو اکادمی، بہار اردواکادمی اور مغربی بنگال اردو اکادمی نے انعامات سے نوازا۔
- افسانہ بند راستے پر 1979میں دہلی یونی ورسٹی نے کٹھپالیا گولڈ میڈل دیا۔ جسے سابق نائب صدر جمہوریہ جناب بی۔ ڈی۔ جٹی نے اپنے ہاتھوں پیش کیا۔
- دہلی اردو اکاڈمی فکشن ایوارڈ 2008
- عبد الغفورنساخ ایوارڈ،مغربی بنگال اردو اکاڈمی،کلکتہ 2017
اپنے منفرد لب و لہجہ کی وجہ سے اپنے ابن کنول نے اردو دنیا میں اپنی پہچان بنائی ہے ۔ ابن کنول کے افسانوں کی سب سے اہم خصوصیت جو ان کو دوسرے افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے داستانوی رنگ و آہنگ۔ ابن کنول کے افسانوں پر داستانوی ادب کے اثرات بہت واضح ہیں۔ خود ابن کنول کو بھی اس بات کا اعتراف ہے۔ اس کی وجہ ان کی نظر میں یہ ہے کہ انہوں نے داستانوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ داستان ان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ اس وجہ سے داستانوی زبان ان کی لفظیات پر حاوی ہے۔ اسّی کی دہائی کے بعد لکھنے والے بہت سے افسانہ نگاروں نے داستانوی رنگ میں افسانے لکھے ہیں۔ عام طور پر انتظار حسین کو اس منزل کا راہ رو سمجھا جاتا ہے۔ مگر ابن کنول کاماننا ہے کہ نئے افسانہ نگاروں کو انتظار حسین نے نہیں بلکہ براہ راست داستانوں نے متاثر کیا ہے۔ نئے لکھنے والوں میں سلام بن عبد الرزاق، حسین الحق، عبد الصمد، قمراحسن، ساجد رشید، انور خاں، شوکت حیات، سعید سہروردی، سید محمد اشرف، غضنفراور انجم عثمانی سب کے یہاں کسی نہ کسی شکل میں داستانوی رنگ و آہنگ مل جاتا ہے۔
ابن کنول اپنے ایک مضمون’ اردو افسا نہ اور داستانوی طرز اظہار‘ میں لکھتے ہیں :
’’ مختصر افسانہ نگاروں نے داستانوں سے مختلف انداز میں استفادہ کیا ہے۔ بعض نے اپنے افسانوں کے عنوانات اس طرح رکھے ہیں کہ ان پر داستانوں کا گمان ہوتا ہے۔ ابن کنول عموماً اپنے افسانوں کی ابتدا داستانوی زبان میں کرتے ہیں۔ ابن کنول نے اپنے بعض افسانوں کے نام بھی داستانوں کے طرز پر رکھا ہے۔ جیسے ’ہمارا تمہارا خدا بادشاہ‘ اور ’آنکھوں کی سوئیاں‘ وغیرہ۔ ابن کنول کے یہ سبھی افسانے جن میں داستانوی اثرات ہیں سن 1980 سے پہلے کے ہیں۔ 1980 کے بعد کے افسانوں میں داستانوی عناصر کم ہیں۔ اس کے باوجود چند الفاظ ایسے ہیں جو ان افسانوں میں بھی مل جاتے ہیں۔ جیسے ’اورہر پھر ایسا ہوا‘ اور ’ اور پھر یوں ہوا‘ یہ جملے بھی داستانوں اثرات کی نشان دہی کر رہے ہیں۔‘‘
ابن کنول افسانہ نگار کے ساتھ ایک ناقد بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں فحاشیت کو جگہ دی ہے اور نہ ان کی تنقیدوں میں ان کے لیے کوئی جگہ ہے۔ دراصل کہانی یاقصہ پن داستانوی ادب کی جان ہے۔ داستان اگرچہ صرف کہانی قصہ ہی نہیں بلکہ تہذیبی مرقعے بھی ہیں۔ بقول ابن کنول’ داستانوں میں اگرچہ فرضی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں لیکن ان داستانوں میں جو تہذیبی مرقعے ہیں، وہ سو فی صدی سچ ہیں ‘ لیکن داستانوں میں پورا زور کہانی پر ہوتا ہے۔ابن کنول ’’میں کیوں لکھتاہوں‘‘ کے عنوان تحت اپنے متعلق کچھ یوں رقمطراز ہیں:
’’شاید تم سمجھ گئے ہو گے میں کیوں لکھتا ہوں ۔میں اپنے احساسات کو الفاظ دینے کی کو شش کر تا ہوں ۔ واقعات اور حادثات چہار جانب بکھرے ہوئے ہیں ۔ان کا بیان الفاظ چاہتا ہے ،میں انہیں الفاظ دے کر رقم کرنا چاہتا ہوں ۔میں اس میں کتنا کا میاب ہوں ۔اس کا فیصلہ تم کرو گے ۔تم سب۔
پروفیسرابن کنول کی کئی اہم کتابوں پردہلی، اتّرپردیش،ہریانہ، بہاراورمغربی بنگال کی اردو اکاڈمیاں انھیں انعامات سے نواز چکی ہیں۔آپ امریکہ، ماریشس، انگلینڈ، پاکستان، روس اورازبکستان کے عالمی سمیناروں میں شرکت کرچکے ہیں۔آپ نے گزشتہ چا لیس برسوں میں متعددقومی اوربین الاقوامی سیمناروں اورکانفرنسوں میں مقالات اور کلیدی خطبات پیش کیے ہیں۔آپ کی تخلیقی خدمات پر آپ کودہلی اردواکیڈمی فکشن ایوارڈ،ہریانہ اردو اکیڈمی کنورمہندرسنگھ بیدی ایوارڈ،مغربی بنگال اکیڈمی عبدالغفورنساخ ایوارڈ،سرسیدملینیم ایوارڈبرائے اردوفکشن اورغالب انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی کے اردونثرایوارڈ سے نوازاگیا۔ اردو زبان و ادب کا یہ چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے 11 فروری 2023کو محبان اردو کو الوداع کہہ گیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
دعا ہے کہ رب کریم انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
کتابیات
1) ہندوستانی تہزیب بوستان خیال کے تناظر میں پروفیسر ابن کنول1988
2) تنقید و تحسین مجموعہ مضامین ڈاکٹر ابن کنول2015
3) تنقید اظہار کتابی دنیا نئی دہلی پروفیسر ابن کنول 2006
4) تیسری دنیا کے لوگ مکتبہ جامعہ نئی دہلی پروفیسر ابن کنول 1984
5) اردو افسانہ ای ایس بی این نمبر 9789380919249 غالب اکیڈمی نئی دہلی پروفیسر ابن کنول 2011
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!