پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
اکمل شاداب
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو، خواجہ معین الدین چشتی لسان یونی ورسٹی، کھنؤ
کل من علیھا فان ہر وہ چیز جو دنیا میں پائی جاتی ہے اسے ایک نہ ایک دن فنا ہو جانا ہے۔ سوائے خدا کے کسی کو ثبات، بقا اور دوام نہیں۔ یہ دنیا اور اس دنیا میں موجود تمام اشیاء ایک دن نیست و نابود اور ختم ہوجائیں گی، ہر ذی روح عالم ارواح کی جانب کوچ کرجائے گی۔ آدم و حوا سے لے کر آج تک اس فانی دنیا میں اولاد آدم کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
مرزا شوق لکھنوی کے بقول “موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ، کل ہماری باری ہے”
بات 11/ فروری 2023 کی ہے۔میں یونیورسٹی سے گھر نکلنے کی تیاری میں تھا کہ میرے ایک عزیز دوست اور شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں استاد ڈاکٹر مامون رشید کا 4:42 PM پر فون آتا ہے اور کانپتی ہوئی آواز میں ایک جان کاہ خبرسنانے کی کوشش کرتےہوئے کہتے ہیں کہ اکمل بھائی! ایک بہت بری خبر ہے، سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیسے کہوں؟ میں نےعرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب! اچھی خبریں سنایا کریں، پھر بھی بتائیں، کیا بات ہے؟ خیریت؟ جس پر ڈاکٹر مامون نے کہا آپ کے استاد ابن کنول صاحب اس دنیا میں نہیں رہے، آج علی گڑھ میں حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ اتنا سنتے ہی میں نے ان کا فون کاٹ دیا اور چند لمحوں تک یہی سوچتا رہا کہ مامون نے مجھ سے ایسا مذاق کیوں کیا ؟ 4:47 PM پر میں نے دوبارہ فون کرکے دریافت کیا ،جواب وہی ملا کہ ابن کنول صاحب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ اچانک اس طرح کی خبر سن کر یقین نہیں ہورہا تھا ، بار بار دل میں یہی بات گردش کر رہی تھی کہ ڈاکٹر مامون کے ذریعہ دی گئی خبر جھوٹی ہو، صداقت پر مبنی نہ ہو اور یہ ہونی نہ ہوئی ہومگر ہونی کو انہونی کون کرسکتا ہے۔ یہ خبر میرے لئے ناقابل یقین اور ناقابل برداشت تھی، مانو میرے اوپر پہاڑ ٹوٹ پڑا، یہ خبر سن کر میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ میں مبہوت اور جہاں کا تہاں جامد و ساکت کھڑا رہا ، ہر طرف اندھیرا چھا گیا، ذہن ماؤف ہوگیا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں اور کہاں جاؤں۔ خدا خیر کرے۔ چار و ناچار، کچھ دیر کے بعد گھر کا رخ کیا، تمام راستے یہی دعائیں کرتا رہا کہ یہ خبر جھوٹی ہو۔ بمشکل تمام گھر پہونچ کر اپنے کمرے میں دراز ہوگیا۔ ابا اور اہلیہ نسیمہ نے میری مبہوت شکل، پریشان حالی اور آنکھوں میں آنسو دیکھ کر یک زبان پوچھا کہ کیا ہوا ؟ خیریت تو ہے؟ موبائل فون کی گھنٹیاں مسلسل بجے جارہی ہیں، فون کیوں نہیں ریسیو کر رہے ہیں؟میں نے خود پر ناکام قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا سر کا انتقال ہو گیا ہے، میں یتیم ہوگیا، شفقت استادی سے محروم ہوگیا، اللہ تعالیٰ نے سر کو اپنے پاس بلا لیا ہے۔ اتنا سنتے ہی گھر میں صف ماتم بچھ گئی، چہار سو سناٹا چھا گیا۔ کسی بھی طرح یقین نہیں ہو رہا تھا کہ سر نے دار فانی سے مقام جاودانی کا سفر قبل از وقت طے کرلیا ہے۔استاد محترم پروفیسر ابن کنول صاحب کے اچانک رحلت کی خبرپوری اردو دنیا میں بہت تیزی سے گردش کرنے لگی جو ہر کسی کے لئے ناقابل یقین تھی۔موبائل کی گھنٹیاں اب بھی لگاتار بج رہی تھیں۔ بیشتر اہل اردو جانتے ہیں کہ میں پروفیسرابن کنول صاحب کا سب سے چہیتا، عزیز اور بے تکلف شاگرد تھا۔ میرا اور سر کا رشتہ صرف استاد اور شاگرد ہی کا نہیں بلکہ باپ اور بیٹے جیسا تھا۔ شاید اسی لئے ہر کوئی اس خبر کی صداقت اور تصدیق مجھ سے چاہتا تھا یا لوگ میرے لئےتعزیتی فون کر رہے تھے۔ نظام خداوندی کل نفس ذائقۃ الموت کے تحت ہر کسی کو موت کا مزہ چکھنا ہے، نا چاہتے ہوئے بھی یقین کرنا پڑا کہ ابن کنول صاحب ہندوستان کے بیشتر شہروں اور دیگرکئی ممالک کا سفرطے کرکے سفر آخرت کے لئے روانہ ہو گئے ہیں۔انسان جہان فانی میں آتا ہے اور ایک دن اسے الوداع کہہ کر مٹی میں مل جاتاہے، باقی رہتی ہیں تو بس اس کی کچھ یادیں اور کچھ باتیں۔پروفیسر ابن کنول ہمہ جہت اور باغ و بہارشخصیت کے مالک تھے، کئی خوبیوں سے مالامال، ایک ہمدرد و غم گسار انسان، ادیب، شاعر، تخلیق کار، اداکار اور مثالی و بہترین استاد تھے۔ استاد محترم نہ صرف مثالی استاد اور مثالی شخصیت کے مالک تھے بلکہ شخصیت ساز بھی تھے۔
پروفیسر ابن کنول نے اپنے شاگردوں کی اصلاح و تربیت بہت ہی مخلصانہ انداز میں کی ہے، انہوں نے اپنے کسی بھی شاگرد کا کبھی بھی استحصال نہیں کیا ، اپنے ہر شاگرد کی مدد اور اصلاح بنا کسی مفاد کے کی ہے۔اس ضمن میں آپ اسم با مسمیٰ ناصر ہیں۔ اردو دنیا اوربالخصوص یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو میں استحصال کرنے والے اساتذہ اور استحصال کا شکار ہونے والے ریسرچ اسکالرز کی بھر مار (ایک طویل فہرست) ہے۔پروفیسر ابن کنول سدا بہار اور جامع کمالات شخصیت کے مالک تھے۔ آپ بہترین استاد کے ساتھ ساتھ بہترین مربی بھی تھے۔ ہمہ وقت فکر مند رہتے کہ جملہ طلبہ بالخصوص اپنے شاگردوں کو روزگار سے کیسے جوڑیں اور ان کی بہترین شخصیت سازی کیسے ہو؟ بہت سےایسے شاگرد ہیں جو ابن کنول صاحب سے تعلیم و تربیت پاکر ہند و بیرون ہند کے مختلف مقامات پر آپ کے نقوش مرتسم کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پروفیسر فخر عالم کہتے ہیں”ان کے طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ہے جو دنیا بھر میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے شاگردوں کی تربیت اس طرح ڈوب کر کی ہے کہ مرحوم کے بعض شاگردوں کو دیکھ کر خود مرحوم کی شخصیت کا گمان ہوتا ہے اور کبھی کبھی من تو شدم تو من شدی کا۔”
پروفیسر ابن کنول کے شاگرد ہونے کا شرف مجھے بھی حاصل رہا ہے۔ میں ابن کنول صاحب کے اولین شاگردوں میں سے ایک ہوں۔ سر نے اپنے دیگر شاگردوں کی طرح میری بھی سرپرستی اور تربیت بہت ہی خلوص کے ساتھ کی ہے۔ اگر یہ کہوں کہ سر سے استفادہ کرنے والے شاگردوں میں میں سر فہرست ہوں تو مبالغہ نہ ہوگا۔ میں نے مرحوم کی نگرانی میں اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کیا ہے، مقالے کی اصلاح کے لئے یونیورسٹی سے زیادہ سر کے ودلت کدہ پر جانے کا اتفاق ہوا، میری تحریروں کو پڑھنے کے بعد بارہا حکم دیتے کہ انہیں پڑھ کر ایسے سناؤ جیسے کہ سمیناروں میں مقالے پیش کئے جاتے ہیں، کبھی کہتے کہ ایسے پڑھو جیسے کہ ریڈیو پر پڑھا جاتا ہے، مجھ سے پڑھوا کر سنتے اور خود بھی پڑھ کر سناتے، مقالہ خوانی نیز ریڈیو پر پیش کش کی باریکیاں بھی سمجھاتے، مجھے مقالہ نویسی اور مقالہ خوانی کے اصول و آداب سے واقفیت استاد محترم کے توسط سے ہوئی۔ جب کبھی آپ کے پاس کسی یونیورسٹی سے سوال نامے تیار کرنے کے لئے خطوط آتے تو اکثر مجھے طلب کرتے، سوالات تیار کرنے کا حکم دیتے اور خود بھی سوالات تیار کرتے، خود کے تیار کردہ سوالات متعلقہ یونیورسٹی کو بھیج دیتے اور میرے ذریعہ تیار کئے ہوئے سوالات کو غور سے پڑھتے، حسب ضرورت اصلاح کے ساتھ حوصلہ افزائی فرماتے۔ اس کے علاوہ آپ دیگر تعلیمی سرگرمیوں سے وابستہ رکھنے کے لئے اپنے دولت کدہ پر بلایا کرتے تھے، مجھے آج بھی یاد ہے کہ کسی غرض سے سر کے گھر گیا ہوا تھا کہ ظہر کی اذان ہوگئی، سر نے فرمایا کہ مسجدچلو، نماز پڑھنے کے بعد کام ہوگا کہ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کہ سر آپ پڑھ کر آئیں تب تک میں یہ کام نپٹاتا ہوں۔ میری اس حرکت پر سر نے ناراضگی کا اظہار کیا، سمجھایا اور ادائیگی صلوۃ کے لئے وصیت و تنبیہ کی۔اس طرح کی تربیت والدین ہی کرتے ہیں یا وہ اساتذہ جو طلبہ کو اپنی اولاد سمجھتے ہیں۔ میں ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں جن کی اصلاح و تربیت صرف ایک طالب علم کی حیثیت سے نہیں بلکہ اولاد کی طرح کی گئی ہے، مجھےابن کنول صاحب کے اہل خانہ میں جو اہمیت حاصل ہے، اس پر فخر ہے۔ سر کے لئے ان کے بڑے بیٹے اور بچوں کے لئے بڑے بھائی کی حیثیت رکھتا ہوں۔ شعبۂاردو خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی، لکھنؤ میں 20/مارچ 2021 کو “مجاز لکھنوی” خطبات سیریز کے تحت “داستان کی جمالیات” پر پروفیسر ابن کنول صاحب کے توسیعی خطبہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔اس خطبے کے لئےلکھنؤ میں سر کی مع اہل و عیال آمد ایک دن قبل یعنی 19/مارچ 2021 کو ہوئی۔ ابن کنول صاحب کے ٹھہرنے کا انتظام “ہوٹل رتن انٹرنیشنل، کلیان پور” میں کیا گیا تھا۔19/مارچ کو میرے اور میری اہلیہ کے اصرار پر عشائیہ کے لئے میرے غریب خانے پر تشریف لائے، عشائیے کے بعد استراحت کے لئے “ہوٹل رتن انٹرنیشنل” تشریف لے گئے۔ اگلے روز یعنی 20/مارچ کی صبح خیریت اور ناشتے کے سلسلے میں سر کو فون کیا، علیک سلیک کے بعد سر نے سب سے پہلے یہی کہا کہ اکمل! اگر تمہیں کوئی دقت نہ ہو تو ہم لوگ تمہارے گھر آجائیں، بچوں کو تمہاراگھر بہت پسند آیا، استاد محترم کی اس بے تکلفی سےمجھے بے حد خوشی ہوئی، میں نے فوراً عرض کیا کہ صدر شعبۂ اردو پروفیسر سید شفیق احمداشرفی صاحب نے مجھے اختیار دیتے ہوئے کہا تھا “تمہارے استاد لکھنؤ آرہے ہیں، استاد اور شاگرد کا معاملہ ہے، تمہیں اختیار ہے، اپنے استاد کے قیام کا انتظام ہوٹل میں کرو یا اپنے گھر میں۔” میں نے آپ سے اپنے گھر میں قیام کے لئے درخواست صرف اس لئے نہیں کی کہ کہیں آپ کو یا آپ کے بچوں کو تکلف نہ ہو۔ جواب ملا “اگر میں کسی شہر میں جاؤں اور میرا بیٹا وہاں رہتا ہو تو میں اپنے بیٹے کا گھر چھوڑ کر ہوٹل میں تھوڑی ٹھہروں گا، تم میرے لئے میرے بڑے بیٹے اورعائش جیسے ہو۔” سر کے اس مشفقانہ جملے کے سنتے ہی عرض گزار ہوا “یہ میری خوش بختی ہے کہ آپ میرے غریب خانہ کو عزت بخشیں، میں آپ کو لینے کے لئے آرہا ہوں۔” میرے گھرتشریف آوری کے بعد سر اور بھابھی (استانی ماں) نے اپنے ساتھ جو تحفے تحائف لے کر آئے تھے، مجھے اور میرے بچوں کو پیش کیا، دو دن قیام رہا، اس دوران ایک سرپرست اور بڑے بزرگ کی طرح ہم سب کو اپنے پاس بلا کر بیٹھاتے، سب سے باتیں اور ہنسی مذاق کرتے، میری چھوٹی بیٹی عنب سے خود کو دادا کہلواتے اور اس سے دریافت کرتے کہ میں کون ہوں؟ عنب جب یہ کہتی کہ آپ پاپا کے سر ہیں تو استاد محترم فرماتے کہ “نہیں، میں تمہارا دادا ہوں، مجھے دادا کہو۔”
سر کے دولت کدہ پر مع اہل و عیال بارہا جانے کا موقع نصیب ہوا، اسی طرح سر نے بھی دہلی میں اور لکھنؤ میں میرے غریب خانہ کو مع اہل و عیال بارہا عزت بخشی ہے۔ سر جب بھی لکھنؤ تشریف لاتے، میرے غریب خانے کو لازمی طور پر عزت بخشتے، ہمیشہ ایک سرپرست کی طرح پیش آتے۔ کاش پاک پروردگار ہمیں استاد محترم کی شفقت و محبت اور عنایات سے مزید فیض یاب ہونے کے مواقع فراہم کرتا۔
سر کے ساتھ آپ کی اسکوٹر اور کار کی سواری تکونہ پارک جامعہ نگر سے دہلی یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی سے تکونہ پارک جامعہ نگراور دہلی یونیورسٹی سے آل انڈیا ریڈیو کی انگنت بارنصیب ہوئی۔ آپ کو شعبۂ اردو میرٹھ یونیورسٹی میں ممتحن (وائوا لینے) کی حیثیت سے تشریف لے جانا تھا، مجھے بھی ساتھ چلنے کا حکم ہوا، حکم کی تعمیل ہوئی، سر کے ساتھ بذریعہ کار رخت سفر باندھا، راستے میں سر نے ایک تھیسس (پی ایچ ڈی کا مقالہ) میرے ہاتھوں میں رکھتے ہوئے کہا کہ میرٹھ تقریری امتحان لینے کی غرض سے چل رہے ہیں، اس تھیسس کے حوالے سے کچھ سوالات قائم کرکے مجھے بتاؤ، میں نے چند سوالات استاد محترم کے حوالے کئے، سر نے میرے ذریعہ تیار کردہ سوالات پر غور کیا، کچھ سوالات کی خوب سراہنا کی اور حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔ صحیح معنوں میں پروفیسر ابن کنول استادیت کے مقام پر فائز تھے جو چلتے پھرتے اپنے طلبہ کی تربیت واصلاح اور رہنمائی کرتے رہتے تھے اور اپنے طلبہ کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے۔ پروفیسر ابن کنول کی طلبہ نوازی اور طلبہ کے تئیں فکر مندی کو پروفیسر ثوبان سعید نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے۔
“ہمیشہ طلبہ کی بہتری اور ذہن سازی کے لئے فکر مند رہتے تھے اور اس فکر کا اظہار ایسے شگفتہ انداز میں کرتے تھے جہاں ان کے خلوص کی گرمی محسوس کی جا سکتی تھی۔ ان کی تحریروں سے بھی یہی خلوص مترشح ہوتا ہے ۔ “
طلبہ نوازی، طلبہ کے لئے فکر مندی، طلبہ کی خیر خواہی، طلبہ کی بہتری اور ذہن سازی یہ وہ اوصاف کمال ہیں جن کی وجہ سے پروفیسر ابن کنول طلبہ کے مابین محمود و مقبول تھے۔ طلبہ میں ابن کنول صاحب کی مقبولیت شعبۂاردو دہلی یونیورسٹی کے کچھ اساتذہ کو راس نہیں آئی، نہ تو ان کی حیات میں اور نہ ہی بعدالممات۔ جس کا بین ثبوت ملازمت سے سبکدوشی کے بعد طلبہ کے ذریعہ اہتمام کئے گئے الوداعی تقریب اور انتقال کے بعد شعبۂ اردو اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس کے تعزیتی جلسے کے موقع پر دیا گیا۔
ابن کنول صاحب سے میری وابستگی 1998 سے 11/ فروری 2023 تک رہی ہے۔ میں نے سر کے ساتھ بہت سا وقت گزارا ہے۔ اس دوران مجھے سر سے استفادے کا خوب موقع ملا اور سر نے بھی میری اصلاح و تربیت میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ابن کنول صاحب قدم قدم پر اور چلتے پھرتے صرف میری ہی نہیں بلکہ اپنے ہر شاگرد کی اصلاح فرماتے رہے۔ سینئرز کی عزت افزائی اور ان کے مقام و مرتبے اور اہمیت کا پاس و لحاظ کیسے رکھا جاتا ہے،سر کی ہدایت سے اس وقت اندازہ ہوا جب میں بزم ادب شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کے ایک پروگرام کی نظامت کررہا تھا، اس پروگرام میں میرے دو سینئرز ڈاکٹر فیاض اور ڈاکٹر انعام الحق بھی موجود تھے (اس وقت فیاض بھائی اور انعام بھائی ریسرچ کر رہے تھے) پروگرام کی صدارت ابن کنول صاحب فرما رہے تھے، سر نے ہدایت دی کہ تمہارے دو سینئر ساتھی پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں انہیں بلا کر آگے بیٹھاؤ۔ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیں، میں پی۔ایچ۔ڈی کر ہی رہا تھا کہ اکتوبر 2005 میں میرا تقرر شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کے عہدے پر ہوا، میرے کئی ساتھی اس وقت ریسرچ کر رہے تھے۔ اپنےچند دوستوں جاوید اقبال، فیصل ذکی، جنید، جلیس بھائی، عفیفہ، فریدہ اور ذکیہ وغیرہ کے ساتھ ایک عام طالب علم کی طرح کرسی پر پیر رکھ کر میز کے اوپر بیٹھا ہوا تھا، سر نے جب مجھے اس طرح دیکھا تو یہ کہتے ہوئے میرے پاس سے گزرے کہ اب تم صرف طالب علم نہیں بلکہ ایک استاد ہو گئے ہو۔
پروفیسر ابن کنول بخوبی جانتے تھے کہ ہر فرد کچھ نہ کچھ صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے، کچھ کی صلاحیتیں پوشیدہ بھی ہوتی ہیں جن کو نکھارنا اور ابھارنا والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہوتی ہے، پروفیسر مرحوم یہ بھی جانتے تھے کہ حوصلہ افزائی سے بہتر کارکردگی کی امید کی جاسکتی ہے، طلبہ پر حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں، ہمارے معاشرے میں عام طور پر ان طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جن کی تعلیمی کار کردگی بہتر ہوتی ہے، کمزور طلبہ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ جب کہ پروفیسر ابن کنول اس سلسلے میں مختلف نظر آتے ہیں، آپ بلا امتیاز ہر طالب علم کی رہنمائی فرماتے، طلبہ کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہتے تھے تاکہ طلبہ کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوسکے۔ سر کے ساتھ بارہا آل انڈیا ریڈیو اور ایک بار جموں کشمیر پبلک سروس کمیشن جانے کا اتفاق ہوا، بیشتر مواقع پر استاد محترم میرے اندر خوداعتمادی پیدا کرنے اور میرے حوصلوں کو تقویت بخشنے کے لئےیہ کہہ کر تعارف کرواتے کہ یہ ڈاکٹر محمد اکمل ہیں اور بر وقت شعبۂ اردو ، دہلی یونیورسٹی میں میرے رفیق کار ہیں۔ جب کہ میں پہلےایک شاگرد اس کے بعد ہی کچھ اور تھا۔
پروفیسر مرحوم بے ضرر اور دوسروں کو فائدہ رسانی کے لئے پیش پیش رہتے تھے، آپ سے فیض یاب ہونے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے، فیض یاب ہونے والوں سے آپ کبھی بدل کے طلب گار نہیں ہوئے۔ کسی کی بدخواہی نہیں کی، شعوری طور پر کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ آپ “نیکی کر دریا میں ڈال” کے فارمولے عمل پیرا تھے، جب آپ پہلی دفعہ شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کے عہدۂ صدارت پر فائز ہوئے تو ایسے لوگوں کو بھی درس و تدریس سے وابستہ کیاجو کافی سینئر تھے، ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے ساتھ بے روزگاری کی زندگی گزار رہے تھے، یہ بات دیگر ہے کہ کچھ استفادہ کرنے والے مفاد پرستوں نے احسان فراموشی کا مظاہرہ کیا۔ فائدہ رسانی کی صرف ایک مثال پیش خدمت ہے۔
مجھ سے کافی سینئر اور شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ایک بے روزگار ٖڈاکٹر (پی ایچ ڈی) کا ایڈہاک تقرر دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں پروفیسر ابن کنول کے توسط سے عمل میں آیا۔ ان کی تقرری کے بعد استاد محترم نے مجھ سے ذکر کیا “میں نے ڈاکٹر صاحب سے اپنے والد کی کتاب پر تبصرہ کے لئے درخواست کی تھی، موصوف وہ کتاب لے گئے پھر کچھ دنوں کے بعد بغیر تبصرہ کئے یہ کہتے ہوئے واپس کر گئے کہ لوگ اپنا کام کروا لیتے ہیں، فائدہ نہیں پہنچاتے، میں مفت میں نہیں لکھوں گا۔” پھر بھی میں نے ان کی تقرری کی۔میں نے عرض کیا کہ مجھے معلوم ہے۔ انہوں نے اس کا ذکر مجھ سے کیا تھا۔ ابن کنول صاحب نے فرمایا: معلوم تھا تو مجھے بتایا کیوں نہیں۔ میں نےعرض کیا کہ یہ سوچ کرنہیں بتایا کہ کہیں اس وجہ سے ان کا نقصان نہ ہوجائے۔ سنہرے حرفوں میں لکھی جانے والی نصیحت آپ نے فرمائی “بہت اچھا کیا، آئندہ کبھی بھی کوئی بھی ایسا کام مت کرنا جس سے کسی کا نقصان ہو، اپنی ذات سے اگرکسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو نقصان بھی مت پہنچانا۔” اس کے علاوہ بھی کئی لوگوں کو آپ کے قلم نے بے لوث فیض پہنچایا ہے۔ یہ تھے بے ضررپروفیسر ابن کنول۔
اساتذہ کو مجازی باپ کہا گیا ہے، حقیقی باپ انسان کے جسمانی وجود کا سبب ہوتا ہے تو مجازی باپ یعنی استاد انسان کے روحانی وجود کو جلا بخشنے کی وجہ بنتا ہے۔ ایک کامیاب شاگرد کا تصور استاد کی شفقت، توجہ اور تربیت کے بغیر ناممکن ہے، پروفیسر ابن کنول ایک عظیم استاد ہیں جنہوں نے اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت ایک سرپرست اور باپ کی طرح کی ہے، اپنے کردار، اعمال، اخلاق اور طلبہ پر شفقت و محبت کی وجہ سے تکریم و تحسین اور تعظیم کے حق دار ہیں۔پروفیسر ابن کنول کا ہر شاگرد اپنے محبوب و مقبول استاد کے لئے بے پناہ عقیدت و جذبات رکھتا ہے، یہی ان کے عظمت کی دلیل ہے۔
عہد حاضر میں اساتذہ کی کمی نہیں ، کئی طرح کے اساتذہ پائے جاتے ہیں، کچھ صحیح معنوں میں استاد ہوتے ہیں، ایسے اساتذہ اپنے شاگردوں کے لئے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک بہترین استاد متاثر کن شخصیت کا مالک ہوتا ہے،اسے شریف، اخلاقیات، اعلیٰ ظرف، مزاج شناس، بے ضرر، دوسروں کے لئےفائدہ مند اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور اسے بخوبی انجام دینے والا ہونا چاہئے۔ ایک اچھے استاد کی تربیت طالب علم کی زندگی کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پروفیسرابن کنول ان خوش نصیب اساتذہ میں سے ایک ہیں، جنہیں ان کے کئی شاگرد اپنا آئیڈیل تسلیم کرتے ہیں اورفخریہ اپنا نام ان سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ وقار، عزت اور مرتبہ آج کے کم ہی اساتذہ کو حاصل ہے۔ آج کے اس عہد میں ایسی شخصیتیں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں۔ شادعظیم آبادی کا یہ شعر پروفیسر ابن کنول پر صادق آتا ہے۔
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں ، منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہل زمانہ قدر کرو، نایاب نہ ہوں، کم یاب ہیں ہم
مضمون کے آخر میں پروفیسر ابن کنول کے اوصاف حمیدہ، ان کی استادیت اور شفقت و محبت کو مدنظر رکھتے ہوئے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ملاحظہ فرمائیں:
” میں ہر نماز کے بعد اپنے استاد اور والد محترم کے لئے دعائے مغفرت کرتا ہوں اور میں نےکبھی بھی اپنے استاد محترم کے گھر کی طرف اپنے پاؤں دراز نہیں کئے، حالانکہ میرے گھر اور ان کے گھر کے درمیان سات گلیاں واقع ہیں اور میں ہر اس شخص کے لئے استغفار کرتا ہوں جس سے میں نے کچھ سیکھا ہے یا جس نے مجھے علم پڑھایا”
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!