ہندوستان کی آزادی میں اردو صحافت

ہندوستان کی آزادی میں اردو صحافت

صحافت ایک ایسا لفظ ہے جس میں ایک مخصوص پیشے کے افراد بڑی دیانت داری کے ساتھ ہر نئے واقعات و حادثات کو پوری صداقت اور دیانت داری کے ساتھ تحریر کر کے تصاویر سے مزین کرکے تمام عوام تک پہنچانے ہیں۔ اور اس میں کوئی ایسی بات یا خبر شامل نہیں کرتے جو جھوٹ ہو سماج میں انتشار پھیلا ئے۔ صحافت کا اصل مقصد ایسی باتیں جو تمام لوگوں کو معلوم ہونا ضروری ہے لیکن معلومات حاصل نہیں ہے تو یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس معلومات کو عوام تک پہنچایا جائے۔ ان کے سماج میں رہنے سے کسی کو کسی طرح کی پریشانی اور تکلیف نہ پہنچے۔ اور امن اور راحت سماج میں قائم و دائم رہے۔

              ہندوستان کے آزادی میں ویسے تو بہت سارے دانشوروں نے، عالموں نے، صحافیوں نے اپنی جانیں قربان کیں ہیں اور اس آزادی میں نہ انہوں نے کسی ذات، برادری اور مذہب کو دیکھا اور نہ ہی اپنے پرائے کو دیکھا۔ بلکہ ہندوستان کی یکجہتی اور یگانگت میں اپنا خلوص دکھایا اور ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے ہندوستان کو آزاد کرانے میں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اور اس حصہ داری میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر، ضروری اور اہم اصطلاحات کو، حالات و واقعات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا کام دراصل صحافت ہے۔ اور اس صحافت میں اردو ادب نے اپنے اخبارات ورسائل کی اشاعت کے ذریعے بہت ہی اہم رول نبھایا ہے۔

              اردو کی تاریخِ صحافت بالعموم انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔صحافت کا میدان کافی وسیع ہے۔ پہلے اس میں ماہنامے، پندرہ روزہ، ہفت وار، اور روزناموں کے علاوہ اسی قسم کی دوسری تحریریں شامل تھیں لیکن آج کے ارتقائی دور میں صحافت کے حدود میں ریڈیو، ٹیلی ویزن اور انٹرنٹ کے ذرائع ابلاغ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ صحافت ہر دور میں اپنے سماج اور زمانے کی بھرپور عکاسی کرتی رہی ہے اور انسانی زندگی سے اسکا تہذیبی رشتہ ہمیشہ مضبوط رہا ہے۔ مطبوعہ صحافت سے قبل مختلف طرز کے نشریاتی ذرائع اور پھر قلمی خبر نامے مروج رہے۔ چین وہ پہلا ملک ہے جس نے چودھویں صدی عیسویں میں سب سے پہلا اخبار نکال کر مطبوعہ صحافتی تاریخ کا سنگِ بنیاد رکھا، جبکہ ہندوستان میں صحافت کا آغاز اٹھارویں صدی عیسویں میں ہوا۔بنگال گزٹ، انڈین گزٹ اور بمبئی ہیرالڈ اسی دور میں معرضِ وجود میں آچکے تھے۔ فارسی کے بعد اردو میں بھی صحافت کا آغاز ہوا اور بہت جلد اس نے ادب کی ایک مستقل اور اہم صنف کی شکل اختیار کرلی۔

              صحافت کی ابتداء تو ہوچکی تھی اور فارسی میں” سراج الاکبر” اور” صادق الاکبر” نام سے فارسی اخبار تو شائع ہو رہے تھے مگر اردو کا کوئی اخبار نہیں تھا۔صحافت کی ابتداء میں اردو اخبار جو سب سے پہلے 1794ء میں شائع ہوتا تھا وہ ٹیپو سلطان کی نگرانی میں ہفتہ وار”قومی اخبار” کے نام سے جانا جاتا تھا جس کا کوئی جواز نہیں ملا ہے حالانکہ ٹیپو سلطان کے کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ اور واضح طور پر سبھی جانتے ہیں کہ 27 مارچ 1822ء کو اردو کا پہلا اخبار جام جہاںنما ہندوستان کے مشرقی شہر کولکاتہ سے جاری ہوا تھا جو ہفتہ وار اخبار تھا۔ اس کے ناشر پنڈت ہری ہر دت اور ایڈیٹر منشی سدا سکھ لا ل تھے۔ اس پہلے اخبار کے ناشر اور ایڈیٹر دونوں غیر مسلم تھے۔ 1836ء میں اردو اخبار”دہلی” سے شائع ہوتا تھا جسے “دہلی اردو اخبار”کہا جاتا تھا۔ اس کے مدیر محمد اکبر تھے یہ بھی ہفتے وار اخبار تھا۔

              1835ء میں جب اردو کو سرکاری اور عدالتی حیثیت حاصل ہو گئی تو اردو کا دوسرا اخبار”اخبار ِ دہلی”جو آگے چل کردہلی اردو اخبار اور پھر اخبار الظفر ہو گیا شائع ہوا جسکا سن ِ اشاعت بعض حوالوں سے1837ء بھی بتایا جاتا ہے اس تاریخی اخبار کے ناشر مولوی محمد حسین آزاد کے والد ِ بزرگوار مولوی محمد باقر تھے۔ اور مولوی باقر نے اپنے پریس میں سب سے پہلے اردو کی کئی اہم کتابیں شائع کیں۔ شاہ محدث دہلوی کے فرزند شاہ محمد رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر کی جانب سے قرآن کا پہلا اردو ترجمہ بھی اسی پریس سے شائع ہوا۔

              جنگِ آزادی کے دوران دہلی میں انہیں 16 دسمبر 1857 کو گولی مار دی گئی۔ بعض محققین کے مطابق مولوی صاحب کی شہادت کا اصل سبب وہ اشتہار ہے جو خلاف جہاد سے متعلق باغیوں کی حمایت کرنے پران کے اخبار میں شائع ہوا تھا۔ اس اشتہار میں انہوں نے ہندو اور مسلمانوں کو متحد ہو کر انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کی ترغیب دی تھی، گویا جہاد کو مسلمانوں پر واجب قرار دیا تھا۔ مولوی صاحب کی قبر کا بھی کوئی نشان نہیں ملتا کیونکہ اس زمانے میں باغیوں کی لاشیں یا تو جلا دی جاتی تھیں یا پھر اجتماعی قبروں میں دفنا دی جاتی تھیں۔اس طرح ہندوستان کی آزادی کی خاطر جان قربان کرنے والے اردو صحافت کے پہلے شہید مولوی محمد باقر کہلائے۔

              1845ء میں ” صادق الاخبار” جاری ہوتا تھا جس کے مدیر “سید جمال الدین خان” تھے اور اس اخبار میں ملک و قوم کے تئیں ہندوستانیوں کے احساس کو بیدار کرنے ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے اور وطن کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے مقصد سے ہمت افزائی کی جاتی تھی۔اس طرح اردو اخبارات کا سلسلہ شروع ہوا تو اسے صحافت کا نام دیا گیا۔ جو اطلاع بہم پہنچانے کا ذریعہ تھا۔ اور آج کے زمانے میں ترقی کرتا ہوا وہ الیکٹرانک میڈیا میں تبدیل ہو چکا ہے۔

موجودہ دور میں تمام مطبوعہ مطبوعات، جیسے اخبارات، رسائل، بروشرز، بطور مطبوعہ میڈیا استعمال ہوتا ہے، جو معلومات کی ترسیل کے لئے مادی وسط کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور وہ تمام ذرائع جن کی مدد سے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں اسے اردو میں ذرائع ابلاغ، عالمی میڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور یہ بات چیت کا سب سے قدیم ذریعہ ہے۔پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک پہنچنے سے پہلے اسے صحافت کے نام سے جانا جاتا تھا۔ظہورالدین نے جو لوازم پیش کیے ہیں ان کے مطابق:

۱)           ’’خبر سے مراد وہ اہم اطلاع ہے جو پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران واقع ہوئے ور ان حادثات و واقعات سے تعلق رکھتی ہوجن کا تعلق انسانی کائنات سے ہے۔”

                                                                        (فنِ صحافت،ص 15)

۲)           “اس کا تعلق کسی ملکی یا غیرملکی واقعے سے ہو۔”

                                                                        (فنِ صحافت،ص 15)

۳)                         “تازہ ترین یاحالیہ واقعے سے تعلق رکھتی ہو۔عصری انسانی مسائل کا احاطہ کرتی ہو۔اس کا تعلق کسی نئے واقعے سے ہو۔کیوں کہ خبر جوں جوں باسی ہوتی جاتی ہے وہ اپنی طاقت سے محروم ہوتی جاتی ہے۔وقتی اعتبار سے خبر کا تازہ ترین ہونا روزنامے کی ضرروتوں کا تقاضاہے۔‘‘

                                                                        (فنِ صحافت، پروفیسر ظہور الدین، اردو پبلیکیشنز 2006, ص 15,16)

              صحافت کا سنہری دور 19 ویں صدی سے 20 ویں صدی کے پہلے نصف تک پھیلا ہوا ہے۔ ، لیکن اس میں عام لوگوں کی دلچسپی آہستہ آہستہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم جیسے دوسرے میڈیا کی طرف ہجرت کرنے سے آہستہ آہستہ صحافت کا انداز تبدیل ہوچکا ہے۔محترم محمد شکیل و نادر علی خان ہندوستانی پریس کے حوالے سے لکھتے ہیں:

 ’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے وجود سے جہاں لامتناہی نقصانات کا سلسلہ شروع ہوا۔وہیں فنون طباعت و صحافت میں مفید اضافے بھی ہوئے چناچہ موجودہ صحافت کا سنگ بنیاد بھی اسی کا رہین منت ہے۔‘‘

 (اردو دنیا ڈسمبر ۵۱۰۲۔ص۔۱۲)

              ویسے دیکھا جائے تو پہلے کے زمانے میں بھی صحافت کا انداز کچھ اور تھا۔ جبکہ اشاروں کے ذریعے، پرندوں کے ذریعے،پتوں کے ذریعے،چھالوں پر، ٹہنی پر، چمڑے پر لکھ لکھ کر اپنی باتوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد کاغذ پر لکھ کر تمام معلومات پہنچائی جاتی تھی۔اس کے بعد ریڈیو کی ایجاد ہوئی یہ ایک آسان اور کم وقت میں زیادہ معلومات فراہم کرنے والا ذریعہ تھا۔ مواصلات میڈیا وہی ہیں جو صوتی سگنل بھیجنے کے لئے radio ریڈیو لہروں کے استعمال پر مبنی ہیں۔ اس لحاظ سے، ریڈیو کی رسائی تحریری پریس سے کہیں زیادہ ہے۔توجام ِ جہاں نما سے قومی آواز،انقلاب، منصف،سیاست اور اعتماد تک مطبوعہ اردو صحافت کی طویل ترین فہرست ہے جسکا احاطہ ناممکن ہے،لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتاہے کہ صحافت نے ہندوستان اور بیرون ہند، اردو کے فروغ کے لئے بیش بہا خدمات انجام دیں چاہے وہ ذرایع ابلاغ ریشمی رومال پر لکھے گئے پیغامات کی صورت میں ہویا پھر تحریک خلافت۔

              تحریک خلافت ایک زبردست عوامی تحریک تھی جس نے برصغیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا،یا الہلال،البلاغ کے اثاثوں کی شکل میں یا چاہے دیگر جرائد و رسائل کی یا ریڈو،ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ کی شکل میں ان تمام ذرائعوں میں سب سے پہلے شروعات اردو ادب سے ہوئی اور اردو اتنی اثردار ہے اور اس کی مقبولیت اتنی وسیع ہے کہ اردو صحافت کے ذریعے عوام کی ترقی اور مرتبہ و رتبہ ہر عام وخاص کو حاصل ہے۔اردو کا رتبہ اور مرتبہ نہ صرف صحافت میں بلکہ ہر فیلڈ میں ہر زمانے میں،اہمیت کا حامل رہا ہے۔

 

Maimuna Tahsin Md. Ismail

Research scholar,

Department of Urdu

Dr. Baba Saheb Ambedkar Marathwara University

Aurangabad, Maharashtra

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.