رضوان الحق کی کہانی’ کچھ سامان: انسانیت اور تہذیب کا گمشدہ سرمایہ
رضوان الحق کی کہانی’ کچھ سامان: انسانیت اور تہذیب کا گمشدہ سرمایہ
رضوان الحق کا یہ افسانہ پڑھتے ہوئے بادیٔ النظر میں یہ احساس ہوتا ہے کہ کہانی ہماری بدلتی ہوئی دنیا کے اندھیروں ،شہری زندگی کی بے ضمیری، سرکاری محکموں کی رشوت ستانی، ضمیر فروشی، ہوس پرستی، مغربی تہذیب کی اندھی تقلید، دیہی سماج میں ذات پات کی خلیج ،پولیس انتظامیہ کی بے حسی ، شہروں میں بستی تنہائی و بے بسی جیسے موضوعات کا بیان ہے۔ ظاہر ہے ان موضوعات کو متعدد افسانہ نگار برتتے رہے ہیں مگر رضوان الحق کی اس کہانی کو ان کا اسلوب پیشکش امتیاز بخشتا ہے۔ موضوعاتی سطح پر کہانی قاری کو خود احتسابی کا درس ضرور دیتی ہے مگر فن افسانہ سے دلچسپی رکھنے والے قاری کو وہ اپنے اسلوب کا گرویدہ بھی بناتی ہے۔
’کچھ سامان‘ کی مرکزی کہانی دراصل طالب کے گرد گھومتی ہے لیکن اس کردار کی یادوں،خوابوں، مشاہدوں اور بیان کردہ باتوں میں دیگر چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ کبھی کسی پرانے واقعے کا ذکر، کبھی کسی خواب یا تجربے کی جھلک، اور کبھی کسی دوسرے کردار کی بات اس بیانیے کے اندر علاحدہ کہانی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ نتیجتاًیہ پورا افسانہ ایک ’کولاژ‘ کی شکل میں ابھرتا ہے جو مختلف جزئیات اور مناظر سے مرکب ہے۔دراصل فنکار نے فریم اسٹوری کی تکنیک سے کہانی کو زیادہ موثر بنانے کی کوشش کی ہے اور قاری کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ ہر ذیلی کہانی کو مرکزی خیال سے جوڑ کر دیکھے اور پورے افسانے کو واحد تخلیقی و فکری تجربے کے طور پر محسوس کرے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ افسانہ نگار نے مذکورہ بالا موضوعات کو سیدھی سادی واقعہ نگاری کے ذریعے نہیں بلکہ خواب اور علامت کے پردے میں بیان کیا ہے۔اس افسانے کا عنوان بھی اہم ہے ۔ ’کچھ سامان‘ دراصل ’سامان زیست یا ضمیر ‘ کا استعارہ ہے۔افسانہ ایک بنیادی فریم قائم کرتا ہے جسے آپ شہر سمجھ لیں۔ اس فریم میں کئی چھوٹی چھوٹی کہانیاں؍ خواب داخل ہوتے ہیں۔ کہیں تو کسی رشوت خور اہلکار کی تصویر بنتی ہے، کہیں اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے تمام تر حد پار کرجانے والے فرد کا خاکہ بنتا ہے ،کہیں انسان کی خود غرضی اور انسانوں یہاں تک کہ اپنے محسنوں سے بے زاری کی جھلک نظر آتی ہے تو کہیں نئی تہذیب کی دیوانہ وار اقتدا کرنے والے دیوانے اپنا چہرہ دکھاتے ہیں۔ کہیں شہری زندگی کی وحشت ناکی ہے تو کہیں قصبوں میں زیست کرنے والے پرانے اقدار کے ضائع ہوجانے کا افسوس، کہیں شہروں میں بسنے والی انسانی بیگانگی ہے تو کہیں گاؤوں میں نہ ختم ہونے والی ذات پات کی خلیج، پوری کہانی اس طرح کے متعدد وقوعوں سے بھری ہے جو خوابوں کی صورت میں اپنا آپ ظاہر کرتے ہیں۔ البتہ یہ سبھی وقوعے کہانی کی مرکزی کشمکش یعنی انسانی وقار اور مفاد پرستی و خودغرضی کے درمیان مقابلہ کی ایک نئی جہت وا کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ کہانی میں بار بار آنے والے خواب پلاٹ انٹیگریشن کا کام کرتے ہیں۔یہ خواب قاری کو ایک ایسے تجربے سے روشناس کراتا ہے جہاں حقیقت اور لاشعور کی سرحدیں مٹ جاتی ہیں۔کہانی بظاہر اپنا مطمح نظر واضح رکھتی ہے مگر کہانی کے ہر منظر میں ایک علامت بھی پوشیدہ نظر آتی ہے۔آپ جانتے ہیں کہ خوابوں کی خاصیت ہے کہ وہ اکثر علامتی زبان میں بات کرتے ہیں۔ رضوان الحق جب مختلف وقوعات کو خواب کے روپ میں پیش کرتے ہیں تو ان کے اندر چھپی ہوئی علامتیں قاری کو نئی تاویلات کی دعوت دیتی ہیں۔ کوئی منظر محض منظر نہیں رہتا بلکہ کسی جذبے، کسی خوف، یا کسی امید کا استعارہ بن جاتا ہے۔ اس طرح قاری پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان علامتوں کی تعبیر تلاش کرے۔اس کہانی میں قاری کو غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اندھیرا اخلاقی زوال یا اجتماعی اخلاقی فقدان کی علامت ہے، بازارانسانی حرص و طمع اور لالچ یا پھر بھوکے نظام کا استعارہ ہے اور بے گناہوں کی قربانی کو ہم طاقت کے جبر کی تصویرکے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ رضوان الحق نے ’کچھ سامان‘ میں روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے معاملات کو علامتی اور ماروائی جہت دی ہے جس کی وجہ سے اس افسانے میں ساز و سامان مادی چیزیں کم اور اخلاق، ضمیر، انسانیت، تہذیبی شناخت کھو جانے کے احساس کی علامت زیادہ بن گئے ہیں۔اس کہانی میں سریئل بیانیہ محض فنی کھیل نہیں بلکہ تہذیبی دکھ کو ظاہر کرنے کا وسیلہ ہے اور ’کچھ سامان‘ دراصل انسانیت اور کھوئی ہوئی تہذیبی فضا کا نوحہ ہے۔جو سامان بچا ہے وہ تہذیب کی بچی کھچی علامتیں ہیں، اور جو سامان گم ہے وہ کھوئی ہوئی شناخت کی یاد دہانی ہے۔
رضوان الحق کی بیشتر کہانیوں میں علامتی پہلو نظر آتے ہیں ۔ ’کچھ سامان‘ میں انھوں نے مشرق و مغرب اور گاؤوں اور قصبے کو بطور علامت یا استعارہ استعمال کیا ہے ۔پہلے یہ دو اقتباسات پڑھیے
’’مغرب کی جانب سے بہت تیز طوفان چلا آرہا تھا۔ طوفان کے آگے آگے کوئی بہت پر کشش شے چل رہی تھی۔ اس کی چمک دمک دیکھ کر لوگ اسے حاصل کرنے کے لیے طوفان کے ساتھ ساتھ بے تحاشا دوڑے چلے جارہے تھے۔ ان کے جسموں پر کپڑے برائے نام تھے اور وہ ان کی شرم گاہوں کو چھپانے کی بجائے انھیں اور بھی ابھارنے کا کام کررہے تھے۔ سبھی اس چمک دار شے کو پانے کی ہوس میں ناچتے جھومتے اور دوڑتے چلے جاتے۔طوفان جہاں جہاں سے گزرتا اس علاقے کے لوگ اس میں شامل ہوتے چلے جاتے۔‘‘
اسی طرح افسانہ نگار نے آگے لکھا ہے :
’’طالب کسی انجانی منزل کی طرف بڑھتا چلا جارہا تھا۔ کہاں جانا ہے؟ اور کیوں جانا ہے؟ سے بے نیاز ، بے خوف، بس چلا جارہا تھا۔ جب وہ شہر سے بہت دور پہنچ گیا تو اس کے ذہن کو کچھ سکون ملا اور سر کا درد بھی کم ہوا۔ وہ لگاتار شہر سے مشرق کی جانب جانے والی سڑک پر بڑھتا رہا حتی کی صبح ہونے لگی۔ جب اس نے اپنی نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا تو شفق کا سرخ اجالا بہت خوبصورت اور راحت بخش لگا۔ سورج چند لمحوں میں طلوع ہونے والا تھا۔‘‘
ان دونوں اقتباسات کو غور سے پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ’مشرق‘ اور’مغرب‘ جغرافیائی سمتیں نہیں بلکہ تہذیبی استعارے ہیں جن کے ذریعے وہ انسانی وجود کے بحران، اقدار کی تبدیلی اور روحانی سکون کی تلاش کو موضوع بناتے ہیں۔پہلے اقتباس میں مغرب سے چلنے والا طوفان جدید مغربی تہذیب کے مادی سیلاب اور سرمایہ دارانہ کلچر کی علامت ہے، جو انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ’چمک دمک والی شے‘ دراصل صنعتی ترقی، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کی لالچ ہے جو بظاہر دلکش ضرور ہے مگر انسان کو ہوس اور اندھی دوڑ میں مبتلا کرتی ہے۔برائے نام کپڑوں اور جسم کے ابھار کی تصویر اس تہذیب کے اخلاقی انحطاط اور عریانیت کے غلبے کو ظاہر کرتی ہے۔طوفان کے ساتھ ہر علاقے کے لوگوں کا شامل ہوتے جانا بتاتا ہے کہ یہ تہذیبی سیلاب وبائی اثر رکھتا ہے۔ اسی لیے یہ وبا جہاں بھی پہنچتی ہے لوگ اس سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ گویا مغرب کی سمت یہاں مفاد پرستی، مادیت، اخلاقی زوال اورفحاشی و عریانیت کا استعارہ ہے۔
جبکہ دوسرے اقتباس میں’طالب‘ کا شہر سے نکل کر مشرق کی جانب بڑھنا دراصل روحانی تلاش کے ہم معنی ہے۔اس اقتباس میں ’شہر‘ مغربی تہذیب کا نمائندہ ہے جس میں رہتے ہوئے طالب پر ذہنی دباؤ اور سر درد طاری تھا، لیکن مشرقی سمت کا سفر اس کے لیے راحت و سکون کا باعث ہے۔سورج کے طلوع کا منظر اور شفق کا سرخ اجالا دراصل زندگی اور روحانی روشنی کا استعارہ ہے۔اسی طرح طالب کا ’کہاں جانا ہے اور کیوں جانا ہے سے بے نیاز ہونا‘ اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تلاش کا حقیقی محرک مادی مقصد نہیں بلکہ اندرونی سکون اور قلبی روشنی ہے۔یوں مشرق کی سمت کو افسانہ نگار نے اخلاقی، فطری اور روحانی قدروں سے جوڑ دیا ہے۔
دراصل افسانہ نگار نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مغربی تہذیب بظاہر ترقی، ٹیکنالوجی اور آزادی کی چمک دمک رکھتی ہے لیکن وہ انسان کو بے سکونی، ہوس اور اخلاقی انحطاط میں دھکیل دیتی ہے۔جبکہ مشرقی تہذیب، فطرت سے قریب اور روحانیت سے وابستگی کے باعث، انسان کو اطمینان، توازن اور تازگی عطا کرتی ہے۔افسانہ نگار کا جھکاؤ صاف طور پر مشرقی قدروں کی طرف ہے، کیونکہ وہ انسان کی روحانی اور اخلاقی بقا کو مادی ترقی سے زیادہ اہم سمجھتا ہیں۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ یہاں اگرچہ افسانہ نگار مشرق کو مثبت اور مغرب کو منفی استعارہ بناتے ہیں، لیکن یہ تقسیم سادہ یا جامد نہیں ہے۔ دراصل وہ مغربی تہذیب کے بے قابو اثرات سے خبردار کرتے ہیں اور مشرق کی جانب رجوع کو ایک تہذیبی علاج کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان کی حقیقی نجات تب ہی ممکن ہے جب وہ طوفانی مادیت سے نکل کر فطری، روحانی اور اخلاقی شعور کی سمت بڑھے۔اس افسانے میں یہ پیغام ملتا ہے کہ اگر انسان اپنی روحانی بنیادوں سے جڑ جائے تو وہ تہذیبی طوفان میں بہنے سے بچ سکتا ہے۔
رضوان الحق نے اپنی اس کہانی میں شہر اور قصبے کو بھی بطور علامت استعمال کیا ہے اور پھر اس علامتی سفر کو ریاستی جبر اور سیاست کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ اس پورے واقعے کی معنوی تہیںمزید معنی خیز بن جاتی ہیں۔ جب طالب کو اپنے سامان کے کھونے کا احساس ہوتا ہے تو وہ شہر سے قصبے کی طرف بھاگتا ہے۔ شہر سے دور جاتے ہوئے اسے سکون کا احساس ہوتا ہے مگر جب وہ قصبے میں پہنچتا ہے اور اسے شدید بھوک لگی ہوتی ہے اور وہ وہاں موجود کچھ لوگوں سے کھانا مانگتا ہے تو اس وقت اس کی بھوک مٹانے کے بجائے لوگ اس سے اس کا نام اور اس کی ذات پوچھتے ہیں۔ اسے مسلمان جان کر کوئی اسے بہروپیا کہتا تھا تو کوئی پاگل۔ اور پھر بظاہر ہندو قصبے کے رہنے والے یہ لوگ طالب کو مسلمانوں کے علاقے میں بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مگر راستے میں داروغہ اسے پکڑ لیتا ہے اور اسے آئی ایس آئی کا ایجنٹ سمجھ لیتا ہے۔ اور اسے پوٹا کے تحت گرفتار کرنا چاہتا ہے مگر تھانے دار جو پہلے سے ہوم منسٹر تک پہنچ رکھنے والے دنیش شکلا کے قاتلوں کا سراغ لگانے میں سرکھپا رہا تھا وہ اسے بڑے کام کا آدمی سمجھتا ہے اور اسے اپنی نوکری بچانے کا وسیلہ بنانے کا فیصلہ کرتا ہے اور بے چارے داروغہ کی طالب کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ بتا کر پرموشن حاصل کرنے کی خواہش ادھوری رہ جاتی ہے۔
یہ پورا منظرنامہ بیان کی حد تک سادہ ہے مگر غور کریے تو یہاں شہر، قصبہ، داروغہ اور تھانے دار سبھی کے کچھ اور معانی بھی برآمد ہوتے ہیں۔ دراصل افسانہ نگار نے اپنے بیانیے میں شہر اور قصبہ کو محض جغرافیائی مقامات کے طور پر نہیں بلکہ علامتی مقامات کے طور پر برتا ہے۔ ان کی معنویت افسانے کے مرکزی بیانیے کو تہذیبی، سیاسی اور سماجی سطح پر وسعت دیتی ہے۔ شہر شور ، ہجوم، بے سکونی،مادیت کے طوفان اور وجودی بے معنویت کی علامت ہے جس میں رہتے ہوئے طالب کو بے اطمینانی اور عدم سکون سے دوچار ہونا پڑتا ہے ، جہاں انسان اپنی انفرادیت کھو دیتا ہے اور محض بازا ر کے طوفان کا ایک پروڈکٹ بن کر رہ جاتا ہے۔ طالب کا شہر سے بھاگنا دراصل اس کا روحانی اور وجودی فرار ہیکیونکہ وہ ایسی جگہ پہنچنا چاہتا ہے جہاںاسے سکون اور زندگی کو معنویت مل سکے۔جبکہ قصبہ جہاں پہنچ کرطالب جسمانی طور پر اطمینان محسوس کرتا ہے لیکن وہاں اسے نئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔ بھوک لگنے پر کھانا طلب کرنے والے شخص سے اس کا نام اور اس کی ذات کی تفتیش دراصل قصبوں میں ڈیرہ جمائے شناخت کی سیاست سے پردہ اٹھاتی ہے۔ قصبوں میں بسنے والے افراد اسے مسلمان جان کر بہروپیا اور پاگل قرار دیتے ہیں جو دراصل اس موقف کو تقویت بخشتی ہے کہ انسان کے وجود یا اس کے بھوک سے زیادہ اہمیت اس کی مذہبی شناخت رکھتی ہے۔ ہندو قصبے والے طالب کو مسلمانوں کے محلے سلطان پور بھیجنا چاہتے ہیں جو دراصل برصغیر کی فرقہ وارانہ لکیر کا وہ عکس ہے جہاں فرد کو سب سے پہلے مذہبی شناخت کے سانچے میں پرکھا جاتا ہے۔لہذا قصبہ افسانہ نگار کے نزدیک سماجی جبر، مذہبی تقسیم،فرقہ واریت اور شناخت کے تعصب کی علامت کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ یہیں پر راستے میں داروغہ کا طالب کو پکڑ لینا اور اسے ’’آئی ایس آئی کا ایجنٹ‘‘ سمجھنا دراصل یہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاستی ادارے فرد کو شک کی عینک سے دیکھتے ہیں۔یہ واقعہ ریاستی اداروں کے اس رویے کی علامت ہے جہاں فرد کو اس کی انسانیت سے کاٹ کر مشتبہ شناخت میں محدود کر دیا جاتا ہے۔طالب ایک بھوکا اور پریشان حال انسان ہے لیکن پولیس کے نزدیک وہ بھوک سے بے حال شخص نہیں بلکہ سیاسی بیانیے کا ایجنٹ بنا دیا جاتا ہے۔ داروغہ کا طالب کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ سمجھنا اور اپنی پرموشن کے لیے اسے استعمال کرنا،اسی طرح تھانے دارکا طالب کو ایک ’’کام کا آدمی‘‘ سمجھ کر اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کی خواہش رکھنا ریاستی مشینری کے جبر، طاقت کے غیر انسانی کھیل اور فرد کی بے قدری کا اعلامیہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس پورے منظر نامے میں طالب ایک بے بس فرد سے بدل کر ریاستی جبر اور طاقت کا ایک مہرہ بن کررہ جاتا ہے۔
اس پورے منظر نامے کو دیکھیے تو شہر ، قصبے، داروغہ اور تھانے دار کے تصرف میں آتے ہوئے طالب ہر سطح پر اپنی انسانی حیثیت کھوتا چلا جاتا ہے۔ ان تینوں مناظر میں طالب کی اصل بھوک ؛یعنی انسانی ضرورت، زندگی کی بنیادی قدر نظرانداز ہوتی ہے۔ ہر جگہ اسے کسی نہ کسی شناختی فریم یا طاقتی کھیل میں پھنسا دیا جاتا ہے۔اور آخرکار وہ ریاستی طاقت کے کھیل میں ایک ایجنٹ یا مجرم میں بدل دیا جاتا ہے۔
شہر، قصبہ اور داروغہ سب مل کر یہ دکھاتے ہیں کہ موجودہ سماجی و سیاسی دنیا میں انسان کی اصل شناخت اس کی انسانیت نہیں بلکہ مسلط کردہ لیبل ہے۔ طالب کی بھوک ایک آفاقی انسانی مسئلہ ہے مگر اس کے جواب میں اسے مذہبی تعصب اور ریاستی جبر ملتا ہے۔ رضوان الحق اس علامتی بیانیے کے ذریعے قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ تہذیبی طوفان اور شناختی سیاست کے بیچ اصل قدر یعنی انسان کی حرمت کہاں کھو گئی ہے۔ ایسے میں طالب ہر اْس فرد کی علامت کے طور پر ابھرتا ہے جو اپنی بنیادی انسانی ضرورت ؛روٹی، سکون، شناخت کے بجائے مذہبی، سیاسی اور ریاستی تعصبات کے بیچ کچلا جاتا ہے۔
رضوان الحق نے ان مناظر کو جس انداز میں تحریر کیا ہے وہ فلمی مونتاژ کی یاددلاتی ہے چونکہ انھیں سنیما اور ڈرامے کے فن سے گہری وابستگی ہے اس لیے اس اسلوب کے اس قدر خوبصورت استعمال کی توقع ان سے کی بھی جاسکتی ہے۔منجملہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ رضوان الحق کی کہانی ’کچھ سامان‘ صرف واقعہ نگاری نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ایک فکری اور تخیلی تجربہ ہے ۔ خواب ، علامت، ماورائی کیفیتوں کے سہارے رضوان الحق نے قاری کو اس کے اپنے لاشعور کی دنیا میں لے جانے میں کامیابی حاصل کی ہے جس کے سبب کہانی ایک عام بیانیے سے بڑھ کر ایک تخلیقی اور تجزیاتی تجربے میں ڈھل کر اپنا معنوی دائرہ مزید وسیع کرنے میں کامیاب ہے۔
٭٭٭٭
Dr. Razi Shehab
Assistant Professor
Head Department of Urdu
Barasat University, West Bengal

Leave a Reply
Be the First to Comment!