سفروں کے احوال : اسد محمد خاں
سفروں کے احوال : اسد محمد خاں
اسد محمد خاں بنیادی طور پر ایک افسانہ نگار ہیں لیکن افسانے ،گیت اور نظموں کے علاوہ ان کی تخلیقات کا ایک مجموعہ ’’ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی‘ ‘کے عنوان سے ۲۰۰۶ء میں شائع ہونے والی کتاب ’جو کہانیاں لکھیں‘ میں شامل ہے۔ اس کا دوسرا ایڈیشن بھی منظر عام پر آچکا ہے جسے القاء پبلی کیشنز لاہور نے ۲۰۱۵ء میں شائع کیا۔ اس مجموعے میں کل سات مضامین شامل ہیں جو مختلف سفروں کے احوال، خطوط اور ای میلز پر مشتمل ہیں۔ یہ تمام تحریریں خطوط کی تکنیک میں لکھی گئی ہیں۔ان کامطالعہ اس لیے بھی مقصود ہے کہ اسد محمد خاں جیسے افسانہ نگاری نے حقیقی واقعات کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ افسانہ معلوم ہونے لگتے ہیں۔ اسی لیے یہ تحریریں بھی ان کے افسانوں کی طرح Readable اور پر تاثر ہیں ۔ پہلی تحریر ’لاکے بیان میں‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس میںاسدمحمد خاں نے فراق اور عدم وجود کے موضوع پر مبنی دو اشعار کی تشریح اپنی ذاتی زندگی کی تجربات کے حوالے سے کی ہے۔ مرزاغالب کے اس مصرعے:نوائے طائرانِ آشیاں گم کردہ آتی ہےکی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میںگم ہوئے ٹھکانوں اور رفیقوں کو تلاش کرتے پرندوں کی پکار سنی ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:’’شہر کے وہ پرندے اور وہ بارشیں یاد ہیں مجھے۔ اپنی ڈاروں سے بچھڑی ہوئی مرغابیاں اور کونجیں جو آسمان میں سنسناتی ہوئی کرلاتی اور کسی جانکاہ جدائی میں چیخ مارتی تھیں۔ یہاں نیچے لگتا تھا کہ کوئی دل مٹھی میں لے کے مسل رہا ہے۔‘‘ ۱؎اسی مفہوم کو وہ اپنی زندگی کے تجربے کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:’’لڑکپن میں، میں نے اپنے تال کے کنارے بیتابی میں پکارتا ایک اکیلا ہنس دیکھا تھا۔ دو دن تک وہ چیختا رہا آبی گھاسوں سے گزرتا، پانی پر نیچے نیچے اڑتا، اتھلے جل میں ٹھیرتا، اڈیکتا پھر پکارتا ہوا وہ اڑجاتا۔ تیسرے دن وہ مرگیا۔ یا شاید مار دیا کسی نے۔میں نے تال کے مچھیروں سے پوچھا، کہنے لگے کسی نے رحم کھاکے ماردیا ہوگا۔ نہیں تو سنا ہے، ہنس سات سات دن لگادیتا ہے اپنے جوڑے کو یاد کرکے چیختا اور انگل انگل ڈوبتا ہے، پھر کہیں جاکے مرتا ہے۔ سارا جنگل بھردیتا ہے اپنے دکھ سے۔‘‘ ۲؎پچاس کی دہائی میں اس طرح کی آشیاں گمشدگی کی کیفیت کو اسدمحمدخاں نے خود بھی محسوس کیا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ ہندوستان سے پاکستان چلے گئے تھے۔دوسرا مصرعہ قرہ العین طاہرہ کا عدم وجود کے حوالے سے ہے:تو کہ فلس ماہی حیرتی چہ زنی زبحر و جود دمبنشیں چو طوطی و دمبدم بشنو خروش نہنگ لااسد محمد خاں نے پہلے اس شعر کی تشریح کی ہے پھر لکھا ہے کہ قرۃ العین طاہرہ وجود کے جوہر (Essence) تلاش کرنے والوں میں سے تھیں۔ کیا خبر وہ کہیں تک پہنچ پائی یا نہیں۔ ہاں لا کی دہشت کو اس نے گنتی کے لفظوں میں ہم تک ضرور پہنچادیا۔ آگے لکھتے ہیں کہ:’’دم بہ دم بشنو خروش نہنگ لا۔اس ٹکڑے کا ماحول خالص فکری ہے۔ یہ کسی مجرد مقصود (Abstract Quest) کی اشارہ کرتا ہے(جسے ہرگز ہرگز میں سمجھنا نہیں چاہتا) یہ صوفیوں کا اور صاحبانِ حال کا مطلوب و مقصود ہے۔ میں تو حسیات کے حوالے سے چیزوں کو جانتا ہوں اور اس پر خوش ہوں۔‘‘ ۳؎حسیات کے حوالے سے ’لا‘ کے ادراک کا تجربہ اسدمحمدخاں نے اپنی زندگی میں پیش آنے والے دو واقعات کے ذریعے بیان کیا ہے۔ پہلا واقعہ یہ کہ پندرہ سال کی عمر میں وہ اپنے عم زاد بھائی کے ساتھ جنگل میں شکار کھیلنے گئے اور بھٹکتے ہوئے پندرہ سے بیس منٹ تک وہ بالکل تنہا ہوگئے تھے، لکھتے ہیں:’’میں نے دیکھا کہ اچانک میرے آگے کچھ نہیں ہے۔ اس وقت Nothingnessکے سامنے تھا میں۔ یہ ایسا تجربہ تھا کہ میں نے آگے کے درختوں کو اور آسمان کو اور جنگل کے بے رستہ فرش کو مٹتے، معدوم ہوتے دیکھا اور سناٹے کی ہونک ایک گرج کی طرح سنی۔ جیسے کٹیلے بے وجہ (broodکرتے ہوئے) ایک ہی ریچ پر گرجتے یا غراتے ہیں تو وہ کسی طرح کی مکمل بے آوازی کا آوازہ تھا۔‘‘ ۴؎وہ کہتے ہیں کہ دوسری مرتبہ اس واقعے کے پچاس باون سال کے بعد مجھے ’لا‘ کا تجربہ ہوا اور انھوں نے اسپین کے میتروا سٹیشن گاردینارد پر پیش آنے والی ایک صورت حال کا بیان کیا ہے کہ جب وہ ایسکے لیٹر (Escalator) کے ذریعے نچلے پلیٹ فارم پر پہنچے تو وہاں بالکل خاموشی تھی:’’خالی بوگیاں اور دور تک روشن اور بے آواز Tunnel۔ اس رخ پر بھی، اس رخ پر بھی مطلق سکوت۔ سناٹا۔تو یہاں لمحے بھر کو- بس ایک ثانیے کو اپنے لڑکپن کے اس سینتالیس اڑتالیس والے جنگل کی طرح میں نے ایک مردہ میترو اسٹیشن کو اور اس کی تمام جزئیات کو اپنی آنکھوں کے سامنے معدوم ہوتے دیکھااور وہ گرج سنی… ’لا‘ کے monsterکا وہ ہنکارا جو کانوں کے رستے ریڑھ کی ہڈی میں اترجاتا ہے اور یہ دیکھا کہ اس دوران خالی ریل گاڑی، پٹریاں، روشنی، پلیٹ فارم وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ مگر میرا یہ تجربہ بہت ہی مختصر تھا۔‘‘۵؎’’الکازر‘‘ میں اسدمحمد خاں نے اسپین کے شہر غرناطہ کے سفر کی روداد قلم بند کی ہے۔ جہاں وہ غرناطہ کے آخری حکمرانوں آل نصر کی مسند (Seat)قصر الحمرا دیکھنے کی غرض سے گئے تھے۔ قصر الحمرا کا ذکر کرتے ہوئے انھوںنے بیسویں صدی کے ایک اسپینی شارع کا ذکر کیا ہے۔ جس نے اپنی شاعری میں قصرالحمرا کی خوبصورتی کا بیان افسانوی اندازمیں کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس تحریر میں ایک فرنچ لیڈی سے قصر الحمرا میں ہونے والی ملاقات کا بیان بھی ہے۔’’چھٹکی بی بی سکسینہ- تھوڑا فرانس او راسپین‘‘ میں سفر پیرس کے احوال قلمبند کیے ہیں، جہاں گاردنارد میترو اسٹیشن پر ان کی ملاقات ایک ہندوستانی لڑکی ’نندتا‘ سے ہوئی جس کا نام انھوں نے چھٹکی بی بی سکسینہ رکھا ہے۔ لڑکی کی گفتگو کے ذریعے اس کی خوش مزاجی اور خوش دلی کا ذکر اسدصاحب نے کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک سکھ سردار ’فلاں مان سنگھ‘ کا بھی ذکر کیا ہے، جس سے ان کی ملاقات پیرس میں ہوئی۔ اس کے بعد ڈاونچی کے شاہکار مونالیزا کو دیکھنے، جانے کا واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ راستہ بھول گئے تھے اور میترو میں کوئی بھی ان کی رہنمائی نہیں کرپارہا تھا کیوں کہ وہاںجتنے بھی لوگ تھے سب اسپینی زبان بولتے تھے۔ یہ ایک طرح کا مزاحیہ (Light hearted) بیان ہے۔آخرمیں اسپین کے ساحلی شہر’ملاگا‘ (اس کا عربی نام ’ملکہ‘ تھا ۔ یہ شہر مشہور مصور پابلوپکاسو کی جائے پیدائش ہے) کے Plaza de solکا بھی ذکر کیا ہے۔ جسے اسپینی ٹوورزم والے مالگا (یا مالقہ) کے ساحل (لوکیشن بحیرۂ روم) کو ساحلِ آفتاب کہتے ہیں۔ اس جگہ کے متعلق اسد محمد خاں نے لکھا ہے کہ دارالخلافے مادرد میں بھی سب شہروں کی طرح ایک چوک شم مش ہے۔’’مادرد کا یہ چوک شم مش، شہر میں قدم جماتے ہوئے اور قدم جماچکے ایفریقی الاصل نوجوانوں اور پاکستانی، ہندوستانی، جاپانی اِمی گرنٹس کارمنہ ہے اور یہ کم دلآویز جپسی لڑکیوں کے غیر جپسی عاشقوں کی پسندیدہ hauntہے۔‘‘ ۶؎اس چوک شم میش پر موجود ایک بھینگی جپسی اور اس کے عاشق کی صورت حال کا بیان بہت دلچسپ ہے۔ جو قسمت کا حال بتانے والی مشین کے ساتھ کھڑی آنے والوں کا حال بتارہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس کا غیر جپسی عاشق جو نابینا ہونے کاناٹک کررہا تھا، پاس آتا ہے اور اس کے سارے پیسے اپنی جیب میں ڈال کر چل دیتا ہے۔’’بارے کوٹھوں کا کچھ بیاں ہوجائے‘‘ میں انہوں نے طوائفوں کے متعلق اپنے لڑکپن کے دو واقعات کا ذکر کیا ہے، جس میں مطرباؤں اور بیسواؤں کو دیکھنے کی ناقص کوشش کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد شہر غرناطہ کے ایک مشہور اڈے ’سان خورے کلب یعنی ولی جورج (نور اللہ مرقدہ) کے نام سے منسوب کوٹھے کی روداد بیان کی ہے۔’’پومپیائی کا پہریدار‘‘ میں شہر پومپیائی اور قصبہ ہر کلانی یم کے سفر کی روداد بیان کی گئی ہے۔ ۲۴؍اگست ۱۹۷۹ء میں پومپیائی شہر سے چار میل دور پر ویسویس جبل سے پھوٹنے والے آتش فشاں کا ذکر کیا ہے، جس میں پورا شہر تباہ و برباد ہوگیا تھا۔ پومپیائی کے پہریدار کا قصہ اسدمحمد خاں نے عہدقدیم کے ہیروز نامی کتاب کی مدد سے تشکیل دیا ہے۔ اس پورے واقعے کو انھوںنے افسانوی طرز میں بیان کیا ہے۔’’نوری اور پیدرو‘‘ مادرد میں دوران قیام اسدمحمدخاں کی ملاقات ہوٹل میں کام کرنے والے طالب علم پیدرو اور مراقشی نوجوان سے ہوئی۔ اس ہوٹل میں ان کے چار فلم رول چوری ہوگئے جو نوری کی کزن نے چرائے تھے جس کے یہاں نوری رہتی تھی۔ اسی صورت حال کا بیان اس تحریر میں کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ مارک ٹوئن کی کہانی A War Prayer کا ترجمہ ’دعائے جنگ‘ کے عنوان سے اور حوان رلفو کی کہانی Luvinaکا ترجمہ بھی شامل ہے۔ آخری تحریر’ ’تورے مالینوس اور بہت کچھ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے، جس میں اندلس کے شہر تورے مالینوس کے سفر کی روداد بیان کی گئی ہے۔ اس میں بحیرۂ روم/ ساحل شمس کے مناظر اور وہاں پر موجود دکانوں وغیرہ کا بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اسی عنوان کے تحت خطوط اور ای میلز کا ایک کولاج تشکیل دیا ہے، جس میں ادیبوں کو لکھے گئے ۱۹۷۶ء، ۱۹۸۵ء اور ۱۹۹۱ء کے تین خط اور اگست – ستمبر ۲۰۰۴ء کی تین ای میلز شامل ہیں۔پہلاخط (۲۸؍جون ۱۹۷۶ء) سیدمحمودخان ہاشمی کے نام ہے۔ خط کی ابتداء میںانھوںنے نثر کی طرف اپنی رغبت کا ذکر کیا ہے اور روز بروزکم ہوتے ادب کے قارئین پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے Commercializationسے ادب کو ہورہے نقصان کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:’’ٹیلی ویژن اور ڈائجسٹ نے ادب سے اس کے قاری چھین لئے۔ مطالعے کا اور غور کرنے کا وقت کسی کے پاس نہیں رہا۔‘‘۷؎نوجوان نسل کی ادب سے بے رغبتی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوجوان نسل تو جیسے انسانی تاریخ یا ادب کا مطالعہ کرنا ہی نہیں چاہتی، لکھتے ہیں:’’وہ لوگ کون ہیں جو لکھنے پڑھنے کے کام کو جاری رکھیں گے؟ ہمارے یہاں کے تازہ دم لڑکے تو بنکوں میں افسری، خلیج کی ریاستوں میں ملازمت یا فلم ٹیلی ویژن میں ایک چانس کے منتظر بیٹھے ہیں ذہین لڑکیاں Microbiology اور Midicineجیسے شعبوں میں جان کھپانے اور تقریباً مڈل ایجڈ ہونے کے بعد شادی کرلیتی ہیں اور شادی کے بعد بڑی یکسوئی سے اچاروں، چٹنیوں اور سوئٹر کے چار سیدھے دو الٹے پھندوں کا لٹریچر جمع کرتی ہیں اور قسم ہے جو اپنے مضمون یا انسانی تاریخ یا ادب یا زندگی سے ایک سطر پڑھنے کا موقع آنے دیں۔‘‘ ۸؎ان شاعروں اور ادیبوں پر طنز کیا ہے جو اپنی فریب کاریوں کے ذریعے کم علمی کے باوجود اعلیٰ مسندوں پر فائز ہوجاتے ہیں اور ادب کے متعلق غلط فیصلے صادر کرنے لگتے ہیں۔ اپنے ان دوستوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، جنھوں نے Statusاور دولت کی لالچ میں اپنی صلاحیتوں کو رائیگاں کردیا:’’میرے بہت اچھے دوست جو بہت اچھا لکھ رہے تھے۔ بقول کسے بہت اچھے جارہے تھے Statusکی (rat race) میں کام آگئے۔ بڑے بڑے ہونہار جو اچھی اچھی نظمیں کہانیاں غزلیں لے کر آتے تھے اب یہ خبر وحشت اثر سناتے آرہے ہیں کہ بھائی! 700-50-150 EB-2500کے گریڈ میں آگئے ہیں۔ ہم ڈپٹی کمشنر کے ساتھ چائے پیتے ہیں۔ گوشت سبزی اور دودھ اسٹوڈنٹس کے وہاں سے مفت آجاتا ہے۔ فرسٹ کلاس گزیٹڈ پوسٹ ہے۔ ہم اب کیریکٹر سرٹیفکٹ پر دستخط کرسکتے ہیں۔‘‘۹؎دوسرا خط (۱۲؍ستمبر۱۹۸۵ء) انورخاں کے نام ہے۔ اس خط میں اسدصاحب نے ایک دولت مند شاعر کو براہ راست نشانہ بناتے ہوئے ادب میں ہونے والی دھاندھلیوں، منافقتوں اور سازشوں پر طنز کا برملا اظہار کیا ہے۔ مثال میں خط سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:’’یہاں منافقت، حرامزدگی اور سازش سب اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے اور پبلک ریلیشنگ، زناکاری اور دلالی سطح اول پر کی جارہی ہے۔ ہمارے یہاں made to orderاولیاء اللہ ہیں کہ ان کی تنخواہ دار، کمیشن خوار خلیفوں کاایک حلقہ ہے جو حضرت صاحب کی کرامات اور خرقِ عادات کی تصنیف و تالیف اور نشر و اشاعت میں ہر وقت منہمک رہتا ہے اور خوب خوب مال بناتا ہے۔‘‘ ۱۰؎خط کے اختتام پر اسد کہتے ہیں کہ انورخاں! یہ میں کسی خط کے جواب میں نہیں لکھ رہا اور نہ ہی کسی نے مجھے ستایا ہے بلکہ یہ دراصل کیتھارسس ہے:’’خود میں لوگوں کے ساتھ Mild(ہاہ!) درجے کی منافقت کرتا ہوں او ریہ سمجھتا ہوں کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا۔ مگر مجھے کامل یقین ہے کہ ٹھیک اس وقت کہیں کوئی بیٹھا ہوا میری کمینگیاں یاد کررہا ہوگا اور اسی طرح زمانے کو برا کہہ رہا ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی خط میں لکھ رہا ہو۔‘‘ ۱۱؎تیسرا خط (۲۱؍جولائی ۱۹۹۱ء) فیروزہ جعفر کے نام ہے جو لندن میں مقیم ہیں اور کہانیاں لکھتی ہیں۔ خط سے پہلے ایک نوٹ میں اسد محمد خاں لکھتے ہیں:’’عزیزہ فیروزہ نے پروین شاکر سمیت کتنے ہی شاعروں ادیبوں کی میزبانی کی ہے۔ خوردوں میں اتنی شفیق خاتون میں نے کوئی اور نہیں دیکھی۔‘‘ ۱۲؎اس خط میں انھوںنے لندن سے پاکستان لوٹتے ہوئے طیارے کے سفر کی روداد بیان کی ہے کہ فلائٹ میں ان کے ساتھ دو ملیشیائی لڑکیاں بیٹھی تھیں جو طیارے کے جھٹکے سے سخت خوفزدہ تھیں۔ اسدصاحب لکھتے ہیں:’’جب بھی طیارہ جھٹکے سے ہوا کی آدھی سیڑھی اترتا تھا، یہ بھیانک آواز میں سسکتی تھیں۔ میںنہایت بزرگانہ طیارہ شناس لہجے میں سمجھاتا تھا: It’s nothing… Just a little turbulance ۔ لٹل ٹربیونس کا آئیڈیا Sellکرنے میں ناکامی ہوئی تو ان سے A Tale of two cities اور ڈِکنز کے بارے میں بات کرنے لگا…ادب نے دستگیری کی۔ ان کا خوف کچھ دور ہوا تو میں نے بتایا کہ میرے ایک Co-delegateپانچ قطار پیچھے برابر درُودِ تاج پڑھ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ طیارے میں کوئی بنیادی خرابی پیدا ہوگئی ہے اور اب بس چل چلاؤ ہے۔ حضرت قبلہ نور اللہ مرقدہ کو تازیانہ عبرت کے طور پر استعمال کیا تو لڑکیوں کا کچھ حوصلہ بڑھا۔‘‘ ۱۳؎خط نما سفرنامے کا انداز ایک لطیف خوش دلی کا ہے، جس سے یہ متن بہت دلچسپ ہوگیا ہے۔ان غیر افسانوی متون میں قاری کی دلچسپی اس کے اسلوب اظہار کے سبب پیدا ہو جاتی ہے اور دوسری صفت ان تحریروں کی یہ ہے کہ اسد محمد خاں نے حقیقی واقعات کو اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ افسانہ معلوم ہونے لگتے ہیں۔ اسی لیے یہ تحریریں بھی ان کے افسانوں کی طرح Readable اور پر تاثر ہیں ۔
حواشی:
(۱) اسد محمد خان، ’لاکے بیان میں‘، مشمولہ ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی، القاء پبلی کیشنز لاہور ۲۰۱۵ء، ص:۲
(۲) اسد محمد خان،’لاکے بیان میں‘، مشمولہ ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی، القاء پبلی کیشنز لاہور ۲۰۱۵ء،ص:۳-۲
(۳) اسد محمد خان،’لاکے بیان میں‘، مشمولہ ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی، القاء پبلی کیشنز لاہور ۲۰۱۵ء، ص:۴
(۴) اسد محمد خان،’لاکے بیان میں‘، مشمولہ ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی، القاء پبلی کیشنز لاہور ۲۰۱۵ء، ص:۴
(۵) اسد محمد خان،’لاکے بیان میں‘، مشمولہ ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی، القاء پبلی کیشنز لاہور ۲۰۱۵ء،ص:۹
(۶) اسد محمد خان،چھٹکی بی بی سکسینہ- تھوڑا فرانس اور اسپین، (مشمولہ) ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی۲۰۱۵ء، ص:۴۰
(۷) اسد محمد خان،تورے مالینوس اور بہت کچھ، مشمولہ ٹکڑوں میں کہی گئی کہانیاں ۲۰۱۵ء، ص:۱۰۳
(۸) اسد محمد خان،تورے مالینوس اور بہت کچھ، مشمولہ ٹکڑوں میں کہی گئی کہانیاں ۲۰۱۵ء،ص:۱۰۳
(۹) اسد محمد خان،تورے مالینوس اور بہت کچھ، مشمولہ ٹکڑوں میں کہی گئی کہانیاں ۲۰۱۵ء،ص:۱۰۵
(۱۰) اسد محمد خان،تورے مالینوس اور بہت کچھ، مشمولہ ٹکڑوں میں کہی گئی کہانیاں ۲۰۱۵ء،ص:۱۰۹
(۱۱) اسد محمد خان،تورے مالینوس اور بہت کچھ، مشمولہ ٹکڑوں میں کہی گئی کہانیاں ۲۰۱۵ء، ص:۱۰۹
(۱۲) اسد محمد خان،تورے مالینوس اور بہت کچھ، مشمولہ ٹکڑوں میں کہی گئی کہانیاں ۲۰۱۵ء،ص:۱۱۰
(۱۳) اسد محمد خان،تورے مالینوس اور بہت کچھ، مشمولہ ٹکڑوں میں کہی گئی کہانیاں ۲۰۱۵ء، ص:۱۱۰
٭٭٭٭

Leave a Reply
Be the First to Comment!